Qurbani Se Pehle Janwar Ka Doodh Peene Ka Kaffara

قربانی سے پہلے جانور کا دودھ پینے کا کفارہ

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12943

تاریخ اجراء: 21 محرم  الحرام1445 ھ/09اگست 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندہ  نے قربانی کے لیے بکری خریدی اور قربانی کرنے سے پہلے ہی اس بکری کا دودھ خود بھی پیا اور گھر والوں کو بھی پلایا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں ہندہ کے لیے کیا حکم ہے؟ اگر اس پر صدقہ کرنا لازم ہے تو اس صدقے کا مصرف کیا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس جانور پر قربانی کی نیت کرلی جائے تو ذبح سے پہلے اُس جانور کے کسی بھی جزء سے ذاتی منفعت حاصل کرنا ، جائز نہیں، کیونکہ وہ  جانوراپنے  تمام اجزاء کے ساتھ قربت کے لئے متعین ہوچکا ہے ۔ یہ قربت اُسی وقت حاصل ہوگی جب اللہ عزوجل کے نام پر اُس جانور کا خون بہایا  جائے، لہذا  جب تک جانور سے یہ اصل غرض حاصل نہ ہوجائے تب تک اس سے ہر قسم کا انتفاع مکروہ و ممنوع  ہے۔ اگر کسی شخص نے خلافِ شرع کوئی ناجائز تصرف اُس جانور میں کرہی لیا تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس جانور سے حاصل ہونے والی چیز کو صدقہ کرے۔

   لہذا پوچھی گئی صورت میں ہندہ نے قربانی کی بکری کا دودھ پی کر اُس قربانی کی بکری کے جزء سےذاتی فائدہ حاصل کیا ہے جو کہ شرعاً ممنوع تھا، لہذا اب ہندہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس ناجائز فعل سے توبہ بھی کرے اور جتنا دودھ اُس نے استعمال کیا ہے ، حساب لگاکر اتنا دودھ یا پھر اُس دودھ کی جو رقم بنتی ہے، اتنی رقم کسی بھی شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ پر صدقہ کرے۔

   قربانی کا جانور اپنے تمام اجزاء کے ساتھ قربت کے لیے متعین ہوجاتا ہے لہذا اُس کے کسی بھی جزء سے منفعت حاصل کرنا حلال نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری  وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: ”ولو اشترى شاة للأضحية يكره أن يحلبها أو يجز صوفها فينتفع به ؛ لأنه عينها للقربة فلا يحل له الانتفاع بجزء من أجزائها قبل إقامة القربة بها۔۔۔۔۔ ولو حلب اللبن من الأضحية قبل الذبح أو جز صوفها يتصدق به ، ولا ينتفع به ، كذا في الظهيرية۔ “ یعنی اگر کسی شخص نے قربانی کے لیے بکری خریدی تو اس کے لیے مکروہ ہے کہ وہ اس بکری کا دودھ دوہے  یا اس کی اون کاٹ کر اس سے نفع اٹھائے، کیونکہ وہ جانور قربت کے لیے متعین ہوچکا ہے پس اس کے اجزاء میں سے کسی جزء کے ساتھ قربت قائم ہونے سے قبل نفع اٹھانا حلال نہیں۔۔۔ اور اگر اس نے ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کا دودھ دوہ لیا یا اس کی اون کاٹ لی تو اس  پر لازم ہے کہ وہ اسے صدقہ کرے اور اس سے کوئی نفع نہ اٹھائے، جیسا کہ ظہیریہ میں مذکور ہے۔(الفتاوى الهنديۃ، کتاب الاضحیۃ،  ج05، ص 301-300، دار الفكر، بيروت ، ملتقطاً)

   تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:”(ویکرہ الانتفاع بلبنھا قبلہ)کما فی الصوف، ومنھم من اجاز ھما للغنی لوجوبھا فی الذمۃ فلا تتعین۔ زیلعی ۔“ یعنی ذبح سے قبل قربانی کے جانور کے دودھ سے نفع حاصل کرنا  مکروہ ہے جیسا کہ اون سے نفع حاصل کرنا مکروہ ہے ۔ البتہ بعض فقہا ء نے ان دونوں (اون کاٹنے اور دودھ دوہنے)  کو غنی کے لئے جائز قرار دیا ہے، کیونکہ اس کے ذمہ مطلقاً کسی بھی جانور کی قربانی کردینا واجب ہے خاص وہی جانور  غنی کے حق میں متعین نہیں ، " زیلعی "۔

    (لوجوبھا فی الذمۃ فلا تتعین)کے تحت رد المحتار میں ہے:”والجواب ان المشتراۃ للاضحیۃ متعینۃ للقربۃ الیٰ ان یقام غیرھا مقامھا فلا یحل لہ الانتفاع بھا مادامت متعینۃ، ولھذا لا یحل لہ لحمھا اذا ذبحھا قبل وقتھا۔“ترجمہ:  ”اس کا جواب یہ ہے کہ غنی بھی جو جانور قربانی کی نیت سے خریدے تو وہ  جانور قربت کے لئے متعین ہوجاتا ہے یہاں تک کہ غنی اس کی جگہ کسی دوسرے کو متعین نہ کردے۔ لہذا جب تک جانور متعین ہے تب تک اس سے نفع حاصل کرنا حلال نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر غنی قربانی کے جانور کو وقت سے پہلے  ذبح کردے تو اس کا گوشت غنی کے لئے حلال نہیں ہوتا۔“(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الاضحیۃ، ج 09، ص544، مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاوٰی  رضویہ میں فرماتےہیں :”ان اصل القربۃ فی الاضحیۃ انما تقوم باراقۃ الدم لوجہ اللہ تعالیٰ فما لم یرق لا یجوز الانتفاع بشئ منہ حتیٰ الصوف و اللبن و غیر ذلک، لانہ نویٰ اقامۃ القربۃ بجمیع اجزائھا“یعنی قربانی میں اصل کارِ ثواب اللہ عزوجل کے لئے خون بہانا ہے، تو  جب تک جانور  کا خون نہ بہایا جائے  اس کی کسی بھی چیز سے یہاں تک کہ اس کی اون ،  دودھ اور اس کے علاوہ چیزوں سے نفع حاصل کرنا،  جائز نہیں، کیونکہ اس نے اس جانور کے تمام اجزاء سے قربت قائم کرنے کی نیت کی ہے۔(فتاوٰی رضویہ، ج 20، ص 512-511، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   اگر دودھ استعمال کرلیا تو اُس کی مثل یا قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔ جیسا کہ محیطِ برہانی میں ہے: ”يكره له أن يحلب الأضحية، ويجز صوفها قبل الذبح، وينتفع به؛ لأن الحلب والجز يفوّت جزءاً منها، وقد التزم التضحية بجميع أجزائها، فلا يجوز له أن يحبس شيئاً منها، فإن فعل ذلك تصدق بها ۔۔۔۔۔ قال البقالي في «كتابه»: وما أصاب من لبنها تصدق بمثله أو قيمته ۔یعنی ذبح سے قبل جانور کا دودھ دوہنا یا اس کی اون کاٹ کر اس سے نفع اٹھانا مکروہ ہے کیونکہ دودھ نکالنے  اور اون کاٹنے سے جانور کے ایک جزء میں کمی پیدا  کرتے ہیں حالانکہ اُس جانور کے تمام اجزاء کو قربان کرنے کا  التزام کیا ہے تو اُس جانور میں سے کسی چیز کو روکنا جائز نہیں ۔ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو وہ اسے صدقہ کرے۔۔۔۔۔۔ "بقالی علیہ الرحمہ" نے اپنی کتاب میں فرمایا کہ اس شخص نے جتنا دودھ استعمال کیا ، اتنا دودھ یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔(الميحط البرهاني، کتاب الاضحیۃ،  ج06، ص 94-95، دار الکتب العلمیۃ، ملتقطاً)

   بدائع الصنائع میں ہے: ”فإن حلب تصدق باللبن لأنه جزء من شاة متعينة للقربة ما أقيمت فيها القربة فكان الواجب هو التصدق به“یعنی اگر کسی شخص نے قربانی سے پہلے ہی جانور کا دودھ دوہ لیا تو وہ اس دودھ کو صدقہ کرے، کیونکہ یہ دودھ اس بکری کا جزء ہے جو قربت کے لیے متعین  ہے حالانکہ اب تک  اس سے قربت قائم نہیں کی گئی ، لہذا واجب ہے کہ اس دودھ کو صدقہ کیا جائے۔(بدائع الصنائع، کتاب الاضحیۃ،  ج05، ص 78، دار الکتب  العلمیۃ، بيروت)

   بہار شریعت میں ہے:”ذبح سے پہلے قربانی کے جانور کے بال اپنے کسی کام کے لئے کاٹ لینا یا اس کا دودھ دوہنا مکروہ و ممنوع ہے اور قربانی کے جانور پرسوار ہونا یا اس پر کوئی چیز لادنا یا اس کو اجرت پر دینا،  غرض اس سے منافع حاصل کرنا منع ہے۔ اگر اس نے اون کاٹ لی یا دودھ دوہ لیا تو اسے صدقہ کردے اور اجرت پر جانور کو دیا ہے تو اجرت کو صدقہ کرے اور اگر خود سوار ہوا یا اس پر کوئی چیز لادی تو اس کی وجہ سے جانور میں جو کچھ کمی آئی اتنی مقدار میں صدقہ کرے۔“(بہار شریعت،ج03،ص 347،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم