Saudia Wale Pakistan Mein Qurbani Karen To Nakhun Aur Baal Kab Tak Na Katen?

سعودیہ والے پاکستان میں قربانی کریں تو ناخن و بال کب تک نہ کاٹیں ؟

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2845

تاریخ اجراء: 14ذوالحجۃالحرام1445 ھ/01جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہم سعودیہ میں ہوتے ہیں اور قربانی پاکستان میں کرنی ہے ناخن  بال وغیرہ ہم جب پاکستان میں قربانی دے لیں گے تب کاٹنے ہیں یا سعودیہ میں عید کے بعد  کاٹ سکتے ہیں اور دوسرا  اگر ہم  بال کاٹ لیتے ہیں اور احتیاط نہیں کرتے  تو کوئی حرج وغیرہ تو نہیں ہوتا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      حدیثِ پاک میں قربانی کرنے والے کےلئے ناخن اور بال وغیرہ کاٹنے  سے جو منع کیا گیا ہے، اس حکم کی ابتدا  ذو الحجہ کا چاند طلوع ہونے سے ہوتی ہے اور اس کی انتہاء قربانی کرنے  تک ہے ،  جس کی  ایک وجہ محدثین کرام نے یہ بیان کی  ہے کہ یہ  قربانی  بندے کے ہر بال اور ناخن وغیرہ کا  فدیہ بن جائے ۔ لہذا آپ پاکستان  میں اپنی قربانی ہونے تک انتظار کریں  اس سے پہلے نہ کاٹیں لیکن یہ حکم وجوبی نہیں، بلکہ استحبابی ہے، یعنی اس پر عمل کرنا بہتر ہے، لہذا اگر کسی نے پہلے ہی بال یا ناخن کاٹ لیے، تو گنہگار نہیں ہوگا  اور نہ ہی قربانی پر کوئی اثرپڑے گا۔

         البتہ یہ بات یادرہے کہ یہ  انتظار  کرنا اسی وقت درست ہے جب بال  وناخن کاٹے ہوئے چالیس دن پورے نہ ہورہے ہوں ورنہ انتظار نہیں کرسکتے کیونکہ چالیس دن سے پہلے پہلے موئے زیرناف وبغل و ناخن کا  کاٹنا ضروری ہے اور بلاعذر شرعی تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ناجائز وگناہ ہے ۔

   صحیح مسلم میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من کان لہ ذبح، یذبحہ فاذا اھل ھلال ذی الحجۃ، فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفارہ شیئاً حتی یضحی‘‘ ترجمہ: جس کے پاس قربانی کے لیے جانور ہو، تو جب ذوالحجہ کا چاند طلوع ہو جائے، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ بھی نہ کاٹے، حتی کہ قربانی کر لے ۔ ‘‘(صحیح المسلم، کتاب الاضاحی، جلد 3، صفحہ 1566، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

   اسی طرح  جامع ترمذی میں ہےکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من رای ھلال ذی الحجۃ واراد ان یضحی، فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفارہ‘‘ ترجمہ : جو ذو الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔‘‘(جامع ترمذی، ابواب الاضاحی، جلد 4، صفحہ 102مطبوعہ  مصر)

   فیض القدیر شرح جامع صغیر میں ہے "ولو تعددت أضحيته انتفت الكراهة بالأولى بناء على الأصح أن الحكم المعلق على معنى يكفي فيه أدنى المراتب لتحقق المسمى فيه ۔۔۔ثم إنه في هذا الخبر لم يتعرض لانقضاء مدة المنع وقد بينه في خبر آخر بقوله عقب ما ذكر حتى يضحي"ترجمہ:اور اگر کسی  کی قربانیاں متعدد ہوں تو پہلی قربانی سے ہی کراہت ختم ہوجائے گی اس لئے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جب  کسی حکم کو کسی بات پر معلق  کیا جائے تو اس کا کم سے کم مرتبہ کا پایا جانا بھی کافی ہوتاہے ،کہ مسمی کا ثبوت   ہوچکا،پھر اس حدیث پاک میں   بال و ناخن وغیرہ کاٹنے  کی ممانعت کی مدت  پورا ہونے کے درپے نہیں ہوئے ،لیکن دوسری حدیث پاک   میں مکمل حدیث پاک ذکر کرنے کے بعد حتی یضحی(قربانی کرنے تک )  فرمانے کے ساتھ اس کی وضاحت کی۔(فیض القدیر  شرح جامع صغیر،ج1،ص339،مکتبہ تجاریہ کبری ،مصر،ملتقطا) 

      مراۃ المناجیح میں ہے:’’جو امیر وجوباً یا فقیر نفلاً قربانی کا ارادہ کرے، وہ بقر عید کا چاند دیکھنے سے قربانی کرنے تک ناخن بال اور مردار کھال وغیرہ نہ کاٹے، نہ کٹوائے تاکہ حاجیوں سے قدرے مشابہت ہو جائے، کہ وہ لوگ احرام میں حجامت نہیں کرا سکتے اور تا کہ قربانی ہر بال، ناخن کا فدیہ بن جائے۔ یہ حکم استحبابی ہے، وجوبی نہیں، لہذا قربانی والے پر حجامت نہ کرانا بہتر ہے، لازم نہیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ اچھوں سے مشابہت بھی اچھی ہے ۔ ‘‘(مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 370، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   فتاوی رضویہ میں ہے’’یہ حکم صرف استحبابی ہے، کر ے تو بہتر ہے، نہ کرے تو مضائقہ نہیں، نہ اس کو حکم عدولی کہہ سکتے ہیں، نہ قربانی میں نقص آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے ۳۱ (اکتیس) دن سے کسی عذر کے سبب خواہ بلا عذر ناخن نہ تراشے ہوں، نہ خط بنوایا ہو کہ چاند ذی الحجہ کا ہو گیا، تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، اس مستحب پر عمل نہیں کر سکتا، اب دسویں تک رکھے گا، تو ناخن و خط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہو جائےگااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے، فعل مستحب کے لئے گناہ نہیں کر سکتا ۔ "(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 353، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم