Walidain Ka Aqiqah Karna Kaisa ?

والدین کا عقیقہ کرنا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2385

تاریخ اجراء: 10رجب المرجب1445 ھ/22جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا والدین کا عقیقہ کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عقیقہ  کےلیے کوئی خاص وقت و مدت متعین نہیں ،عمر کے جس حصے میں بھی کیا جائے مستحب   وباعثِ ثواب ہے۔  لہٰذا اگروالدین حیات ہوں توان   کی طرف سے عقیقہ کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے جانورکاان کی ملک ہوناضروری ہے ، اب اگرجانورخریدنے سے پہلے ان کے لیے جانورخریدکران کی طرف سے عقیقہ کرنے کی اجازت لے لیں اوروہ جانور خریدتے وقت ان کے لیے خریدنے کی نیت کریں تواس سے جانوران کی ملک ہوجائے گااوراب  ان کی طرف سے عقیقے کی نیت سے ذبح کرنے سے،ان کا عقیقہ ہوجائے گا۔

    اوراگرجانورخریدنے کے بعدان سے اجازت لیں گے تواب والدین کاقبضہ کاملہ ہوناضروری ہے ،جب ان کا(یاان کے وکیل کا)شرعی قبضہ ہوجائے تواب ان کی طرف سے عقیقے کی نیت سے ذبح کرنے سے،ان کا عقیقہ ہوجائے گا۔

سنتِ عقیقہ کی ادائیگی  کے لیے وقت اور جگہ  کی قید نہیں جیسا کہ علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’الدماء أربعۃ مایختص بالزمان والمکان کدم المتعۃ والقران ۔۔۔ وما لا یختص بزمان ولا مکان کدم العقیقۃ ‘‘ ترجمہ:قربانی کی چار قسمیں ہیں، ایک جو وقت و جگہ کے ساتھ خاص ہوجیسے تمتع و قران کی قربانی۔۔۔(چوتھی قسم) جو وقت اور جگہ کسی کے ساتھ خاص نہ ہوجیسے عقیقے کے جانور کی قربانی۔(حاشیۃ الشرنبلالی علی  الدرر فی شرح الغرر،جلد2، صفحہ156،الناشر اولوا لالباب)

   نیزفتاوی رضویہ میں ہے’’عقیقہ ساتویں دن افضل ہے، نہ ہو سکے تو چودھویں،ورنہ اکیسویں،ورنہ زندگی بھر میں جب کبھی ہو۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد20،صفحہ586،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   تبیین الحقائق کے حاشیہ شلبی میں شہاب الدین احمد بن محمد الشلبی (المتوفی 1021ھ) فرماتے ہیں:قال الولوالجی رجل ضحی شاۃ نفسہ عن غیرہ لم یجز سواء کان بأمرہ أو بغیر أمرہ لأنہ لا یمکن تصحیح النیۃ عنہ إلا بإثبات الملک فی الشاۃولن یثبت إلا بالقبض ولم یوجد قبض الأمر لا بنفسہ ولا بنائبہ .اہـ“ترجمہ: امام الولوالجی نے فرمایا: کسی آدمی نے اپنی بکری کسی دوسرے کی طرف سے قربان کردی تو جائز نہیں ،برابر ہے اس دوسرے کی اجازت سے ہو یا بغیر اجازت کیونکہ بکری میں دوسرے کی ملکیت ثابت کئے بغیراس کی طرف سے قربانی کی نیت درست نہیں ہوسکتی اوربکری میں دوسرے کی ملکیت (اس صورت میں )صرف اس کے قبضے سے ہی ثابت ہوسکتی ہے جبکہ یہاں اجازت دینے والے کاقبضہ نہیں پایاگیا،نہ اس نے خودقبضہ کیااورنہ اس کے نائب نے ۔  (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشِّلْبِیِّ،جلد6،صفحہ9، المطبعۃ الکبری الأمیریۃ ، القاہرۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم