Chori Ki Saza Ke Tor Par Chor Ki Tankhwa Zabt Karna

چوری کی سزا کے طور پر چور کی تنخواہ ضبط کرنا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2700

تاریخ اجراء: 27شوال المکرم1445 ھ/06مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک کارخانہ میں چوری کے حوالے سے یہ قانون بنایا  گیا ہے کہ اگر کوئی مزدور چوری کرتے پکڑا گیا تو اس کے پورے ہفتے کے پیسے کٹ جائیں گے  ، کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کارخانہ کی انتظامیہ کا  ملازم سے  چوری شدہ مال لینے کا تو حق ہے،لیکن  بطور سزا   پورے ہفتے کی  تنخواہ ضبط کرنا شرعاً ناجائز ہے ،کیونکہ مالی جرمانے کے ساتھ سزا دینا  شرعاً جائز نہیں کہ یہ تعزیربالمال ہے اورتعزیر بالمال منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل کرناحرام اورباطل طریقے سے مال کھانا ہے ۔لہذا تنخواہ کاٹنے کا قانون تو شرعاً درست نہیں ہے ،ہاں ! البتہ  کارخانہ  میں ضابطہ اخلاق  وانتظام کو برقرار رکھنے کےلیے  انتظامیہ  بطور سزا ایسے ملازم کو نوکری سے برطرف کرنا چاہے  تو اس  کا انتظامیہ کو  پورا حق حاصل ہے۔

   اسلام میں مالی جرمانہ جائز نہیں ،چنانچہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام، ثم نسخ‘‘ ترجمہ:مالی جرمانہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔(بحرالرائق شرح کنز الدقائق، جلد5،صفحہ68، دارالکتب العلمیہ)

   اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں:’’تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔درمختار میں ہے:’’ لا باخذمال فی المذھب‘‘ترجمہ:مالی جرمانہ مذہب کی رو سے جائز نہیں ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد5، صفحہ 111، رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم