Dil Azari Ke Badle Dil Azari Karna Kaisa ?

دل آزاری کے بدلے دل آزاری کر سکتے ہیں ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12365

تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1444 ھ/24 اگست 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے کسی مسلمان کو تھپڑ مارا یا مذاق اڑایا جس سے اس کی دل آزاری ہوئی ، تو  کیا بدلے میں اس کو تھپڑ مار سکتے ہیں یا اس کا بھی اسی انداز میں مذاق اڑا سکتے ہیں، جس سے اس کی دل آزاری ہو؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

  اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ شرعی سزاؤں(قصاص، حدود و تعزیرات) کو نافذ کرنے کا حق صرف حاکمِ اسلام یا اس کے نائب کو ہے،ان کے علاوہ کسی کو ان سزاؤں کے نافذ کرنے کا اختیار نہیں۔ثانیاً یہ کہ کسی مسلمان کو ناحق تھپڑ مارنا یا اس کا مذاق اڑا کر اس کی دل آزاری کرنا ، ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے ۔ قرآن و حدیث میں مسلمان کو ناحق اذیت دینے والے کے متعلق سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں ،لیکن  شریعت نے اس میں کوئی قصاص مقرر نہیں فرمایا،بلکہ علماء نے صراحت فرمائی ہے کہ ان چیزوں میں کوئی قصاص نہیں۔لہٰذاپوچھی گئی صورت میں حکمِ شرع یہ ہے کہ جس شخص نے بھی کسی مسلمان کو ناحق تھپڑ مار کر اسے تکلیف پہنچائی یا اس کا مذاق اڑا کر اسے قلبی رنج پہنچایا،وہ گنہگار اور حق العبد میں گرفتار ہوا،اس پر لازم ہےکہ  اپنے اس جرم سے اللہ  کریم کے حضور معافی مانگے اور اس مسلمان سے بھی اپنا قصور معاف کروائے۔

  فتاوی رضویہ میں ہے:”بہتان اٹھانا ، ناجائز طور پر آبرو لینا ، جعل ،دغا ، فریب یہ سب باتیں گناہ ہیں ، خواہ اپنی عورت کے ساتھ ہوں، خواہ کسی کے ساتھ، اور ان گناہوں کے لئے شرع نے کوئی حد مقرر نہ فرمائی ، تو ان میں سزائے تعزیرہے ، جس کا اختیار حاکمِ شرع کو ہے“(فتاوی رضویہ، جلد 13،صفحہ 615،616، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

  حدود و قصاص و تعزیرات کا اختیارغیرِ سلطان کو نہیں۔اس کے متعلق امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”حدود و تعزیر و قصاص جس کا اختیار غیر سلطان کو نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد14،صفحہ 169،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

  تھپڑ ،مکا وغیرہ مارنے میں کوئی قصاص نہیں۔اس کے متعلق درِ مختار میں مجتبیٰ سے منقول ہے:”لا قود فی لطمۃ ووکزۃ ووجاءۃ“یعنی تھپڑ مارنے، مکا مارنے یا دھکا دینے میں قصاص نہیں۔

  اس کے تحت ردالمحتار میں طحطاوی سے منقول ہے:”فالثلاثۃ راجعۃ الی الضرب بالید وما ذکرہ لاینافی ثبوت التعزیر“یعنی یہ تینوں ہاتھ سے مارنے کی طرف راجع ہیں اور مصنف نے جو ذکر کیا(کہ اس میں قصاص نہیں)،تو یہ ثبوتِ تعزیر کے منافی نہیں ہے۔(ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد 10،صفحہ 250،مطبوعہ کوئٹہ)

  بہارِ شریعت میں ہے:”تھپڑ مارا یا گھونسہ مارا یا دبوچا ، تو ان کا قصاص نہیں ہے۔“(بھارِ شریعت، جلد3،حصہ 18،صفحہ 790،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

  صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جو شخص مسلمان کوکسی فعل یا قول سے ایذاء پہنچائے، اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے وہ مستحقِ تعزیر ہے۔“ (بھارِ شریعت، جلد 2،حصہ 9،صفحہ 407،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

  امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ایذائے مسلم بے وجہ شرعی حرام قطعی ۔قال اللہ تعالیٰ:﴿ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا ۔آنانکہ آزار دہند مردان مومن و زنان مومنہ را بے جرم پس بہ تحقیق کہ بہتان و گناہ آشکارابرخود برداشتند۔سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماید :من اٰذی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اللہ ۔ہر کہ مسلمانے را آزار داد مرا اذیت رسانید و ہرکہ مرا اذیت رساند حق تعالیٰ را ایذا کرد ،اے وہر کہ او سبحانہ را ایذا کرد پس سر انجام ست کہ بگیرد اورا‘‘یعنی مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًاوہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں،بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔سیدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ من اٰذی مسلما فقد اٰذانی ومن اٰذانی فقد اٰذی اللہ‘‘ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نےاللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائےگا۔“ (فتاوی رضویہ ، جلد24،صفحہ 425،426، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

  فتاوی رضویہ میں ہے:”حق العبد ہر وہ مطالبۂ مالی ہے کہ شرعاً اس کے ذمہ کسی کے لیے ثابت ہو اور ہر وہ نقصان و آزار جو بے اجازتِ شرعیہ کسی قول ،فعل،ترک سے کسی کے دین ، آبرو، جان ، جسم ،مال یا صرف قلب کو پہنچایا جائے،تو یہ دو قسمیں ہوئیں ۔۔۔۔اورحقوق العباد میں بھی ملک دیان عزجلالہ نے اپنے دارالعدل کایہی ضابطہ رکھاہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے،معاف نہ ہوگا۔“(فتاوی رضویہ ملتقطا، جلد24،صفحہ459، 460،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

  مسلمان کی دل آزاری کرنے والے کے متعلق امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”شرعاً وہ مرتکبِ گناہ ہوا اور نہ صرف حق اللہ بلکہ حق العبد میں بھی مبتلا، اس پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اور زید سے اپنا قصور معاف کرائے“(فتاوی رضویہ، جلد24،صفحہ 337،رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم