مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13088
تاریخ اجراء: 18ربیع الثانی1445 ھ/03نومبر
2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں
کہ طلاق رجعی کی عدت میں اگر عورت رجوع کے الفاظ کہہ لے، مثلاً
عورت مرد سے کہے کہ "میں تم سے رجوع کرتی ہوں،" تو کیا
اس صورت میں بھی رجوع ہوجائے گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عورت طلاقِ رجعی
کی عدت میں رجوع کے الفاظ کہہ دے
تو رجوع نہیں ہوگا کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے رجوع کرنے کا
حق مرد کو دیا ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے: ”وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ
اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا“ ترجمہ کنز الایمان: ” اور ان کے شوہروں کو اس
مدت کے اندر ان کے پھیر لینے کا حق پہنچتا ہے اگر ملاپ چاہیں۔
“(القرآن الکریم: پارہ 02،
سورۃ البقرۃ، آیت 228)
مذکورہ بالا آیت کے تحت تفسیر
خزائن العرفان میں ہے: ”یعنی طلاق رجعی میں عدت کے
اندر شوہر عورت سے رجوع کرسکتا ہے خواہ عورت راضی ہو یانہ ہو لیکن
اگر شوہر کو ملاپ منظور ہو تو ایسا کرے۔ ضرر رسانی کا قصد نہ کرے جیسا کہ
اہل جاہلیت عورت کو پریشان کرنے کے لئے کرتے تھے۔“(تفسیر خزائن العرفان، ص 77، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بدائع الصنائع، فتاوٰی عالمگیری
وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے :”و النظم للاول“ أن يكون أحد نوعي ركن الرجعة - ،
وهو القول - منه لا منها حتى لو قالت للزوج راجعتك لم يصح لقوله سبحانه وتعالى {
وبعولتهن أحق بردهن } أي : أحق برجعتهن منهن ولو كانت لها ولاية الرجعة لم يكن
الزوج أحق بالرجعة منها ، فظاهر النص يقتضي أن لا يكون لها ولاية الرجعة أصلا إلا
أن جواز الرجعة بالفعل منها عرفناه بدليل آخر ، وهو ما بينا۔“ترجمہ: ”رجعت کے رکن کی
دو اقسام ہیں ، ان میں سے ایک قسم قول سے رجوع کرنا ہے اور وہ
قول مرد کی طرف سے ہو، نہ کہ عورت کی
طرف سے، یہاں تک کہ اگر عورت نے شوہر سے کہا کہ میں تجھ سے رجوع کرتی
ہوں تو یہ رجوع صحیح نہ ہوگا، اس فرمانِ باری تعالیٰ
کی وجہ سے{وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ
بِرَدِّهِنَّ} یعنی شوہروں کو ان سے رجوع کرنے
کا زیادہ حق ہے۔
اگر عورت کوبھی رجعت کا اختیار ہو تا تو شوہر زیادہ
حقدار نہیں ہو گا ، لہذا آیت مبارکہ کا ظاہر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورت کو اصلاً
رجعت کا حق حاصل نہیں، مگر یہ کہ عورت کی طرف سے بالفعل رجوع
کے جائز ہونے کو ہم نے ایک دوسری
دلیل سے جانا اور اسے ہم نے بیان بھی کیا ہے۔ “ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الطلاق، ج 03، ص
186، دار الكتب العلميۃ، بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے: ”عورت نے مرد سے کہا میں نے
تجھ سے رجعت کرلی تو یہ رجعت نہ ہوئی۔“ (بہارِ شریعت، ج02، ص 172، مکتبۃ المدینہ،
کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیا اب کیا حکم ہے؟
میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہےتو اب بچے کس کےپاس رہیں گے؟
میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی رہی کیا اب نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؟
اپنی روٹی الگ پکاؤ،مجھ سے دورہوجاؤ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلا ق ہوجاتی ہے یا نہیں؟
کیا سوتے میں طلاق دینے سے ہوجاتی ہے یا نہیں؟
طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟
جہیز کے سامان کا حکم