مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12549
تاریخ اجراء: 25 ربیع الثانی 1444 ھ/21
نومبر 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں
علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر شوہر اپنی بیوی
کی غیر موجودگی میں اسےزبانی طور پر طلاق دے اور بیوی
کو معلوم نہ ہو، تو طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو
دیا ہےاورشوہراپنی بیوی کوطلاق دینے کے معاملے
میں منفرد و مستقل ہے،اس لئے طلاق واقع ہونے کے لئے عورت کا موجود ہونا، اسے
طلاق کا علم ہونا یا اس کا طلاق کے الفاظ سننا کچھ ضروری نہیں
۔لہٰذا
جب بھی شوہر اپنی بیوی کے لئے طلاق کے الفاظ اتنی آواز
سے کہےجوخودشوہرکے کان تک پہنچنے کے قابل ہوں
،تو
طلاق واقع ہوجائے گی خواہ بیوی وہاں موجود نہ ہو یا
بیوی نے طلاق کے الفاظ نہ سنے
ہوں یا بیوی کو شوہر کے طلاق دینے کا علم نہ ہو۔
قرآنِ
پاک میں اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:”الَّذِیۡ
بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِؕ ترجمۂ کنز الایمان:جس کے ہاتھ
میں نکاح کی گرہ ہے۔(سورہ بقرہ، آیت 237)
جس کے
ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے وہ شوہر ہی ہے جو نکاح کو ختم کرنے کا
مالک ہے۔اس کے متعلق تفسیر
روح المعانی میں ہے:”وھو الزوج المالک لعقد النکاح وحلہ“یعنی اور وہ شوہر ہے جو نکاح کا
عقد کرنے اور اسے ختم کرنے کا مالک ہے۔(روح
المعانی، جلد 1،صفحہ 547،مطبوعہ:بیروت)
شمس
الائمہ امام ابو بکرمحمد بن ابی سہل سرخسی رحمۃ اللہ علیہ
مذکوہ آیت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :”وهو الزوج۔۔۔وظاهر
الآية يدل على ذلك لان الذی بيده عقدة النكاح من يتصرف بعقد النكاح وهو
الزوج “یعنی اور وہ شوہر
ہے۔۔۔اور آیت کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے ،کیونکہ
جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو وہی عقدِ نکاح میں تصرف
کرتا ہے اور وہ شوہر ہے۔(المبسوط لسرخسی ملتقطاً ،جلد6،صفحہ
63،مطبوعہ:بیروت)
شوہر
طلاق دینے کے معاملے میں منفرد و مستقل ہےاور طلاق کا واقع ہوناعورت
کے معلوم ہونے پر موقوف نہیں۔اس کے متعلق محیط برہانی
میں ہے:”ان الزوج ينفرد بايقاع الطلاق الثلاث ولا يتوقف ذلك على علم المراة “یعنی
شوہر تین طلاقیں واقع کرنے میں منفرد ہے اور طلاق کا واقع ہونا عورت کے معلوم ہونے پر موقوف
نہیں۔(المحیط البرھانی، جلد5،صفحہ
366،مطبوعہ:کراچی)
علامہ سید
محمدابو السعود مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ان
الزوج یستقل بالطلاق کاستقلال المولی بالعتاق من غیر ان
یکون لھا علم بذلک“یعنی جیسے
آقا (اپنے غلام کو)آزاد کرنے میں مستقل ہے ایسے ہی شوہر طلاق کے
معاملے میں مستقل ہے
بغیر اس کے کہ عورت کو طلاق کا علم ہو۔(فتح اللہ
المعین علی شرح ملا مسکین للکنز، جلد2،صفحہ
608،مطبوعہ:کراچی)
صدر الشریعہ
مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:”طلاق میں شوہر مستقل ہے ،عورت کی موجودگی یا
علم ضرور نہیں“(بھارِ شریعت، جلد2،حصہ 11، صفحہ
790،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
شوہر نے جب اتنی
آواز سے طلاق کے الفاظ کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے ، تو طلاق واقع
ہوجائے گی خواہ عورت نے الفاظ نہ سنے ہوں۔اس کے متعلق امام اہلسنت
الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’طلاق کے
لئے زوجہ خواہ کسی دوسرے کا سُننا ضرور نہیں،جبکہ شوہرنے اپنی
زبان سے الفاظِ طلاق ایسی آواز سے کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل
تھے اگر چہ کسی غل، شور یا ثقلِ سماعت کے سبب نہ پہنچی عند
اﷲطلاق ہوگئی“(فتاوی رضویہ، جلد12، صفحہ
362، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
دو طلاقوں کے بعد عدت کے اندررجوع کرلیا اب کیا حکم ہے؟
میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔۔۔۔کہنے سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہےتو اب بچے کس کےپاس رہیں گے؟
میاں بیوی میں ایک سال تک جدائی رہی کیا اب نکاح دوبارہ کرنا ہوگا؟
اپنی روٹی الگ پکاؤ،مجھ سے دورہوجاؤ کیا یہ الفاظ کہنے سے طلا ق ہوجاتی ہے یا نہیں؟
کیا سوتے میں طلاق دینے سے ہوجاتی ہے یا نہیں؟
طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟
جہیز کے سامان کا حکم