Hamla Pregnant Aurat Ko Talaq Dena Kaisa Hai ?

حاملہ عورت کو طلاق دینا کیسا ہے ؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1726

تاریخ اجراء: 23ذوالقعدۃالحرام1444 ھ/12جون2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا حاملہ کو طلاق دینا گناہ ہے، کیا حاملہ کو طلاق دے سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   طلاق کے جواحکام غیرحاملہ کے متعلق ہیں ،وہی حاملہ کے متعلق ہیں یعنی جس صورت میں غیرحاملہ کوطلاق دینامنع ہے ،اس صورت میں حاملہ کوبھی دینامنع ہے اورجس صورت میں غیرحاملہ کوطلاق دینامنع نہیں ،اس صورت میں حاملہ کوبھی دینامنع نہیں ۔اوراس کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ :"اگرطلاق  کی حاجت ہوتوطلاق دینامباح(جائز)ہے ورنہ ممنوع ہے ۔"

    البتہ !یہ یاد رہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔

   قرآن مجید میں حاملہ عورتوں کی عدت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّترجمہ کنزالایمان:اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں۔(پارہ28،سورۃ الطلاق،آیت4)

   المحیط البرہانی میں ہے”إن كانت ممن لا تحيض لصغر أو كبر طلقها متى شاء واحدة، و إن كان عقيب الجماع وكذلك الحامل“ترجمہ:اگرعورت کوکم سنی یابڑھاپے کی بناء پرحیض نہ آتاہوتواُسے جب چاہے ایک طلاق دے خواہ صحبت کے بعدہی سہی،یوں ہی حاملہ عورت کو بھی طلاق دیناجائزہے۔(المحیط البرہانی،کتاب الطلاق، الفصل فی بیان اَنواع الطلاق،ج3،ص200، بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ:" حمل کی حالت میں طلاق دینا جائز ہے یا نہیں؟"

آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:"جائز و حلال ہے اگرچہ ایام حمل میں بلکہ آج ہی بلکہ ابھی ابھی اس سے جماع کرچکا ہو‘‘مزید ایک مقام پر فرمایا:’’ عورت کو حمل ہونا مانعِ وقوع طلاق نہیں۔‘‘( فتاوی رضویہ ،ج12، ص 374 ،375 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

   فتاوی رضویہ میں ہے (فارسی کاترجمہ)"تیسراقول یہ ہے کہ :اگرطلاق کی حاجت ہےتومباح ہے ورنہ ممنوع ہے ،یہی قول صحیح اوردلائل سےمویدہے ۔"(فتاوی رضویہ،ج11،ص321-322،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم