Kya Mazak Mein Bhi Zihar Ho Jata Hai ?

کیا مذاق میں بھی ظہار ہوجاتا ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13244        

تاریخ اجراء: 08رجب المرجب1445 ھ/20جنوری 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا مذاق میں بھی ظہار ہوجاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! مذاق مسخری کی حالت میں بھی ظہار واقع ہوجاتا ہے اور مرد پر ظہار کا کفارہ لازم ہوتا ہے کہ ظہار درست واقع ہونے کے لیے رضامندی اور سنجیدگی کا پایا جانا کوئی شرط نہیں۔ 

   یاد رہے کہ ظہار سے مراد  یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو یا اُس کے کسی ایسے جزء کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو، کسی  ایسی عورت سے تشبیہ دے جو اُس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا تیرا سر یا تیری گردن میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے۔ ظہار کا حکم یہ ہے کہ مرد جب تک ظہار کا کفارہ نہ دیدے اُس وقت تک اپنی اُس عورت سے جماع کرنا، یا شہوت کے ساتھ اُس کا بوسہ لینا، یا اُس کو چھونا، یا اُس کی شرمگاہ کی طرف نظر کرنا حرام ہے۔

   مذاق میں بھی ظہارواقع  ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ  میں مذکور ہے:”وكونه جادا ليس بشرط لصحة الظهار حتى يصح ظهارا لهازل۔“یعنی ظہار درست ہونے کے لیے سنجیدگی شرط نہیں ہے، لہذا مذاق کرنے والے شخص کا ظہار بھی درست واقع ہوگا۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الطلاق، ج 01، ص 508، مطبوعہ پشاور)

   بہار شریعت میں ہے:”ہنسی مذاق میں یا نشہ میں یا مجبور کیا گیا اس حالت میں یا زبان سے غلطی میں ظہار کا لفظ نکل گیا تو ظہار ہے۔(بہارِ شریعت، ج 02،ص 206، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ظہار کا حکم بیان کرتے ہوئے علامہ ابو بکر بن مسعود بن احمد کاسانی علیہ الرحمہ بدائع الصنائع میں نقل فرماتے ہیں : ”وأما حكم الظهار فللظهار أحكام : منها حرمة الوطء قبل التكفير ۔۔۔۔۔ومنها حرمة الاستمتاع بها من المباشرة والتقبيل واللمس عن شهوة والنظر إلى فرجها عن شهوة قبل أن يكفر ؛ لقوله عز وجل {مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا} وأخف ما يقع عليه اسم المس هو اللمس باليد إذ هو حقيقة لهما جميعا أعني الجماع واللمس باليد لوجود معنى المس باليد فيهما ؛ ولأن الاستمتاع داع إلى الجماع فإذا حرم الجماع حرم الداعي إليه إذ لو لم يحرم لأدى إلى التناقض۔“ترجمہ: ”ظہار کے چند احکام ہیں انہی احکام میں سے ایک حکم مرد کا ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے قبل اپنی عورت سے وطی کا حرام ہونا ہے۔۔۔۔ یونہی کفارے سے پہلے عورت سے استمتاع کا حرام ہونا بھی ہے یعنی مباشرت، شہوت کے ساتھ بیوی کا بوسہ لینا یا اُسے چھونا، یونہی شہوت کے ساتھ اُس کی فرج کی طرف نظر کرنا بھی  حرام ہے اس ارشادِ باری تعالیٰ کی وجہ سے { مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا یعنی قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں } اور مس کا  جو سب سے ہلکا اطلاق ہوتا ہے وہ ہاتھ سے چھونا ہے کیونکہ یہ درحقیقت ان دونوں کو شامل ہے میری اس سے مراد جماع اور ہاتھ سے چھونا ہے کیونکہ ان دونوں ہی میں ہاتھ سے چھونا پایا جاتا ہے۔ واضح ہوا کہ استمتاع جماع کی طرف بلانے والا ہے،لہذا  جب جماع حرام ہے تو جماع کی طرف بلانے والے امور بھی حرام ہوں گے کہ اگر یہ دواعی جماع حرام نہ ہوں تو یہ بات تناقض کی طرف لے جانے والی ہوگی۔ “(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الظہار، ج 03، ص 234، دار الكتب العلمية، بیروت، ملتقطاً)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ظہار سے متعلق نقل فرماتے ہیں:” ظہار کے یہ معنے  ہیں کہ اپنی زوجہ یا اُس کے کسی جزوِ شائع یا ایسے جز کو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کے ليے حرام ہو یا اسکے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو مثلاً کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا تیرا سر یا تیری گردن یا تیرا نصف میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے۔۔۔۔۔ ظہار کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفارہ نہ دیدے اُس وقت تک اُس عورت سے جماع کرنا یا شہوت کے ساتھ اُس کا بوسہ لینا یا اُس کو چھونا یا اُس کی شرمگاہ کی طرف نظر کرنا حرام ہے اور بغیر شہوت چھونے یا بوسہ لینے میں حرج نہیں مگرلب کا بوسہ بغیر شہوت بھی جائز نہیں۔ “(بہارِ شریعت، ج 02،ص 208-205، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

  نوٹ: ظہار سے متعلق مزید مسائل کی معلومات حاصل کرنے کے لئےمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”بہارِ شریعت، جلد 02، صفحہ 205تا 217“سے”ظہار  کا بیان“پڑھنابے حد مفید رہے گا۔ اس کتاب کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ  www.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم