Kya Talaq Dete Waqt Biwi Ka Samne Hona Zaroori Hai ?

کیا طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا شوہر کے سامنے موجود ہونا ضروری ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13009

تاریخ اجراء:        08ربیع الاول1445 ھ/26ستمبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دو الگ الگ مواقع پر گواہوں کی موجودگی میں ایک طلاق دے، لیکن دونوں ہی مرتبہ طلاق دیتے وقت اُس کی بیوی اس شخص کے سامنے موجود نہ ہو، تو کیا اس صورت میں بھی طلاق ہوجائے گی؟ کیا طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا شوہر کے سامنے موجود ہونا ضروری  ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے۔  بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا سامنے موجود ہونا یا طلاق کے الفاظ سننا ضروری ہے جبکہ  شرعاً ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہےاورشوہراپنی بیوی کوطلاق دینے کے معاملے میں منفرد و مستقل ہے۔  لہذا  اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے لئے طلاق کے الفاظ اتنی آواز سے کہےجواس کے کان تک پہنچنے کے قابل ہوں،تو بلاشبہ طلاق واقع ہوجائے گی خواہ بیوی وہاں موجود نہ ہو یا بیوی  نے طلاق کے الفاظ نہ سنے ہوں یا بیوی کو شوہر کے طلاق دینے کا علم نہ ہو۔  یہ بھی یاد رہے کہ زبان سے طلاق دینے کے ساتھ ساتھ تحریر سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے جبکہ اس کی تمام تر شرائط پائی جائیں۔

   شوہر نے طلاق کے الفاظ اتنی آواز سے کہےجواس کے کان تک پہنچنے کے قابل ہوں تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ جیساکہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(و) ادنی (الجھرا اسماع غیرہ و) ادنی (المخافتۃ اسماع نفسہ ۔۔۔ ویجری ذٰلک المذکور فی کل مایتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ، وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرھا“یعنی کم از کم جہریہ ہے کہ دوسرا سُنے اور کم از کم خفاء یہ ہے کہ خود سُن سکے۔ یہ ضابطہ ہر ایسے مقام کے لئے ہے جس کا تعلق نطق سے ہو، جیسے ذبیحہ پر بسم اﷲ، سجدہ تلاوت واجب ہونے ، غلام کو آزاد کرنے، طلاق دینے، اور کلام میں کوئی استثناء کرنے وغیرہ میں  ۔(الدر المختار مع الرد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 535، مطبوعہ کوئٹہ، بیروت)

   طلاق کے لیے عورت کا شوہر کے سامنے موجود ہونا یا طلاق کے الفاظ سننا کوئی ضروری نہیں۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص اپنی عورت کے نان نفقہ سے بے خبر تھا کہ عورت کے وارثوں میں سے کسی نے آن کر اس سے کہا کہ اگر نان نفقہ نہیں دے سکتا تو طلاق دے دے۔ چنانچہ اسی وقت اس آدمی کے رُوبرو طلاق دے دی تو یہ طلاق ہوئی یا نہیں کیونکہ عورت وہاں نہ تھی؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”طلاق ہوگئی، طلاق کے لئے عورت کا وہاں حاضر ہونا کچھ شرط نہیں فان ازالۃ لاعقد کما لایخفی (کیونکہ یہ ازلہ نکاح ہے نکاح نہیں ہےکہ عورت کی حاضری ضروری ہوتی جیسا کہ مخفی نہیں) واﷲتعالٰی اعلم۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج12، ص362، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک فتوی کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”طلاق کے لئے زوجہ خواہ کسی دوسرے کا سُننا ضرور نہیں جبکہ شوہر اپنی زبان سے الفاظ طلاق ایسی آواز سے کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے( اگر چہ کسی غل شور یا ثقل سماعت کے سبب نہ پہنچی عند اﷲطلاق ہوگئی، عورت کو خبرہوتو وہ بھی اپنے آپ کو مطلقہ جانے، ہاں اگر صرف دل میں طلاق دے لی تو بالاجماع نہ ہوگی، یا زبان سے لفظ تو کہے مگر ایسے کہ زبان کو صرف جنبش ہوئی،  آواز اپنے کان تک آنے کے بھی قابل نہ تھی تو مذہب اصح میں یُوں بھی نہ ہوگی۔ “ (فتاوٰی رضویہ، ج12،ص363-362، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”طلاق میں شوہر مستقل ہے ،عورت کی موجودگی یا علم ضرور نہیں“(بہارِ شریعت، ج02، ص 790،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی خلیلیہ میں ہے:”طلاق میں عورت کی جانب سے کوئی شرط نہیں۔ حاملہ ہو یا غیر حاملہ، موجود ہو یا غیر موجود، اسے معلوم ہو یا نہ معلوم ہو بہر حال طلاق واقع ہوجائے گی ۔(فتاوٰی خلیلیہ ، ج 02 ، ص 256 ، ضیاء القرآن پبلیکشنز ، کراچی)

   مفتی عبد المنان اعظمی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”طلاق کے لیے لڑکی کا وہاں موجود رہنا یا طلاق کے الفاظ سننا یا رضامند ہونا ضروری نہیں ہے طلاق کے معاملہ میں شوہر مستقل ہے۔ قرآن عظیم میں ہے:﴿ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ؕ اس سے موجودہ صورت میں طلاق واقع ہوگئی۔“(فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 03، ص 298، شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم