Talaq Ke Baad Bachi Kis Ke Pas Rahe Gi ?

طلاق کے بعد بچی کس کے پاس رہے گی؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Kan:12150

تاریخ اجراء:29ربیع الثانی 1438ھ/28جنوری2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی چھ سال پہلے ہوئی ،میری تین سال کی ایک بیٹی ہے ۔ہم میاں بیوی میں جھگڑا رہتا ہے جس کی وجہ سے ہماری بن نہیں پا رہی ہے،مجھے پوچھنا یہ ہے کہ اگر میں ان کو طلاق دے دیتا ہوں تو جدائی کے بعد مندرجہ ذیل معاملات میں شرعاً کیا حکم ہے ؟

    (1)میری بیٹی کس کے پاس رہے گی ؟

    (2)اگر بچی کی ماں کہیں اور شادی کر لیتی ہے تو اب بچی کس کے پاس رہے گی ؟

    (3)اگر بچی اپنی ماں کی پرورش میں ہوتو کیا وہ لوگ مجھے بچی سے ملنے سے روک سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1) نو سال کی عمر تک بچی اپنی والدہ کے پاس رہے گی، اور اس دوران بچی کے اخراجات آپ پر لازم ہوں گے۔نو سال کے بعداس کی شادی تک آپ کے پا س رہے گی۔

    (2)اگر بچی کی ماں ایسے شخص سے شادی کر لیتی ہے جو بچی کا اجنبی یعنی نامحرم ہے تو اب اسے حقِ پرورش نہ ہوگا بلکہ بچی کی نانی کو حق حاصل ہوگا ،وہ نہ ہو تو نانی کی ماں ،وہ نہ ہوتوبچی کی دادی ،دادی نہ ہوتو پردادی ۔یہ نہ ہوں تو دیگر رشتہ دارعورتوں کو حق حاصل ہوگا۔ جن کا تفصیلی بیان بہار شریعت  میں صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” ماں اگر نہ ہو یا پرورش کی اہل نہ ہو یا انکار کر دیا یا اجنبی سے نکاح کیا تو اب حق پرورش نانی کے ليے ہے، یہ بھی نہ ہو تو نانی کی ماں، اس کے بعد دادی، پر دادی بشرائط مذکورہ بالا پھر حقیقی بہن پھر اخیافی بہن پھر سوتیلی بہن پھر حقیقی بہن کی بیٹی پھر اخیافی بہن کی بیٹی پھر خالہ یعنی ماں کی حقیقی بہن پھر اخیافی پھر سوتیلی پھر سوتیلی بہن کی بیٹی پھر حقیقی بھتیجی پھر اخیافی بھائی کی بیٹی پھر سوتیلے بھائی کی بیٹی پھر اسی ترتیب سے پھوپیاں پھر ماں کی خالہ پھر باپ کی خالہ پھر ماں کی پھوپیاں پھر باپ کی پھوپیاں اور ان سب میں وہی ترتیب ملحوظ ہے کہ حقیقی پھر اخیافی پھر سوتیلی۔ اور اگر کوئی عورت پر ورش کرنے والی نہ ہو یا ہو مگر اسکا حق ساقط ہو تو عصبات بہ ترتیبِ ارث یعنی باپ پھر دادا پھر حقیقی بھائی پھر سوتیلا پھر بھتیجے پھر چچا پھر اس کے بیٹے مگر لڑکی کوچچا زاد بھائی کی پرورش میں نہ دیں خصوصاً جبکہ مشتہاۃ ہوا ور اگر عصبات بھی نہ ہوں تو ذوی الارحام کی پرورش میں دیں مثلاً اخیافی بھائی پھر اُسکا بیٹا پھر ماں کا چچا پھر حقیقی ماموں۔ چچا اور پھوپھی اور ماموں اور خالہ کی بیٹیوں کو لڑکے کی پرورش کاحق نہیں۔“                     

(بہار شریعت،جلد2،حصہ8،صفحہ254،مکتبۃ المدینہ کراچی)

    (3)پرورش کے دوران یا بعد میں اگر ماں یا باپ بچی کو ملنا اور دیکھنا چاہیں توملنے اور دیکھنے سے  کوئی منع نہیں کر سکتا ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم