Talaq Ki Kasam Khana Ya Khilana Kaisa ?

طلاق کی قسم کھانا یا کھلانا کیسا  ؟

مجیب: فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-534

تاریخ اجراء: 08ربیع لاول1444 ھ  /05اکتوبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   طلاق کی قسم کھانا یا کھلانا کیسا۔؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   طلاق کی قسم کھانا یاکسی سے طلاق کی قسم لیناشرعا ناپسندیدہ فعل  ہے اسے نفاق کی علامت میں بھی شمارکیاگیاہے ، لہٰذا اس سےبچناچاہیے ۔

   امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ جامع صغیر میں اورامام علاء الدین علی المتقی الھندی رحمۃ اللہ علیہ کنز العمال میں ابنِ عساکر سے حدیث پاک بیان کرتے ہیں:”ما حلف بالطلاق مومن ولا استحلف بہ الا منافق“یعنی مومن طلاق کی قسم نہیں کھاتا اور طلاق کی قسم نہیں لیتا مگر منافق۔(کنز العمال، حدیث 46340،جلد16،صفحہ 689، بیروت)

   جدالممتار میں ہے:”ان الحلف بالطلاق عد فی الحدیث من خصائل النفاق فاذن یترجح  قول من کرہ“یعنی حدیث پاک میں طلاق کی قسم اٹھانے کو خصائلِ نفاق سے شمار کیا ہے ، تب اسی کا قول راجح ہو گا ،جس نے اسے مکروہ قرار دیا۔(جدالممتار، جلد 5،صفحہ 122،مطبوعہ:بیروت)

   امام اہلسنت ،مجدد دین و ملت،الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک واعظ کے متعلق سوال ہوا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی تھی اس پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ:’’واعظ کو نہ چاہئے کہ طلاق کی قسم کھاتا  کہ شرعا ً ناپسندیدہ ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،جلد13،صفحہ 198،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم