kiya Walid Ke Hote Hue Mamu Ko Haq Parwarish Haasil Hota Hai ?

کیا والد کے ہوتے ہوئے ماموں کو حق پرورش حاصل ہوتا ہے؟

مجیب: مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs:983

تاریخ اجراء:05جمادی الثانی 1438ھ/05 مارچ 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض معاملات کی وجہ سے میں نے تقریبا سولہ سال پہلے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی ، اس وقت میری سب اولاد چار سال یا اس سے کم ہی تھی ، میری بیوی اولاد کو لے کر اپنے میکے (لاہور )میں رہنا شروع ہو گئی اور کچھ عرصے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور بچوں کی ساری دیکھ بھال بچوں کے ماموں کرتے رہے ، اب مجھے کسی نے بتایا ہے کہ لڑکا سات سال کی عمر میں اور لڑکی نو سال کی عمر میں پہنچ جائے تو والد پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے پاس رکھے اور ان کی تربیت کرے ۔میں انہیں لینے کے لیے گیا تو ان کے ماموں واپس کرنے سے منع کر رہے ہیں اورمیرے بچے ( بیٹا 20، اور بیٹیاں 17,18سال کی ہیں ) بھی ساتھ آنے پر راضی نہیں ہیں ، اب میرے لیے شریعت میں کیا حکم ہے ؟نیز کیا ان کی شادیوں کی ذمہ داری مجھ پر ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں آپ کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ آپ بچوں کے ماموں سے بچے لے کر اپنی کفالت میں رکھیں اور ان کی اچھی تربیت کریں کیونکہ ماں کی وفات کے بعد نانی کے پاس پرورش پانے کی مدت بہت پہلے پوری ہو چکی ہے۔ اوربالغ ہونے کے بعد اگرچہ بیٹے کو الگ رہنے کی اجازت مل جاتی ہے مگر یہ اس صورت میں ہے جبکہ بیٹا ایسا سمجھدار ہو گیا ہو کہ اب بد نامی یا فتنے کا خوف اور تادیب کی حاجت نہ ہو مگر ہمارے زمانے میں عموما بیس سال کا لڑکا اتنا سمجھدار نہیں ہوتا اور اسے تادیب کی حاجت ہوتی ہے یا بدنامی وغیرہ کا خوف ہوتا ہے ، نیز اکثر صحبتیں بھی اخلاق کو برباد کرنے والی ہیں ، اس لیے بیٹا بھی آپ کے ساتھ ہی رہے گا اور بیٹیاں مطلقا جب تک ان کی شادی نہیں ہو جاتی ، آپ کے ساتھ رہیں گی ، انہیں حکم شریعت بتائیں اور سمجھائیں ، اگر وہ نہیں مانتے تو آپ کے نافرمان اور گنہگار ہوں گے، البتہ اگر بیٹا واقعی میں ایسا ہے کہ اب نہ تو بدنامی یا فتنے کا خوف ہے اور نہ تادیب کی ضرورت ہے تو بیٹا اپنے ماموں کے پاس رہ سکتا ہے اور آپ بیٹے کو اپنے پاس رہنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔ ماموں کو باپ کے ہوتے ہوئے بچے اپنے پاس رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے نیز بیٹیوں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ کہہ کر وہیں رکی رہیں کہ ہم بھائی کے ساتھ رہ رہی ہیں کیونکہ والد کے ہوتے ہوئے بھائی کے پاس رہنا بھی درست نہیں،نیز بچوں کی شادی کی ذمہ داری بھی آپ پر ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم