Mehangai Ki Waja Se Ziyada Mehar Ka Mutalba Karna Kaisa?

مہنگائی کی وجہ سے زیادہ مہر کا مطالبہ کرنا کیسا ؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:har:5010

تاریخ اجراء:18صفرالمظفر1440ھ/28اکتوبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی شادی ہوئی،لیکن اب معاملات اس حد تک خراب ہو گئے ہیں کہ طلاق دینی پڑے گی۔لڑکی والے کہہ رہے ہیں کہ چونکہ اب مہنگائی زیادہ ہو چکی ہے ، لہٰذا مہر دُگنا دینا ہو گا ، جبکہ وقتِ عقد مہر پانچ ہزار روپے مقرر ہوا تھا۔پوچھنا یہ ہے کہ طلاق ہونے کی صورت میں کتنا مہر دینا ہو گا؟

     نوٹ ! شادی پانچ سال پہلے ہوئی تھی اور اس وقت پانچ ہزار روپے دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی کی قیمت سے بہت زائد تھے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     شریعتِ مطہرہ میں مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس کی قیمت ہے اور زیادہ کی کوئی حد  نہیں،جتنا بھی مقرر کر دیا جائے لازم ہوگا۔نیز اس میں اعتباروقتِ عقدکا ہے ، لہٰذا وقتِ عقد جو مہر مقرر ہوا،وہ دس درہم یا اس سے زیادہ قیمت کا ہو،تو وہی لازم ہوگا،مہنگائی وغیرہ کی وجہ سے اس میں زیادتی کا مطالبہ جائز نہیں ہوگا۔

     صورتِ مسئولہ میں بوقتِ نکاح مہر میں مقرر کی گئی رقم چونکہ اس وقت دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی کی قیمت سے زیادہ تھی ، لہٰذاطلاق ہونے کی صورت میں صرف یہی مقرر کردہ پانچ ہزارروپے لازم ہوں گے  اور لڑکی والوں کی جانب سے زیادتی کا مطالبہ جائز نہیں ہے۔

     تنویر الابصار و درمختار میں ہے : (اقلہ عشرۃ دراھم مضروبۃ کانت او لا)ولو دینا اوعرضا قیمتہ عشرۃوقت العقد۔ ملخصا۔ مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہیں ، خواہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے اگرچہ مہر  دین کی صورت میں ہو یا کوئی سامان ہو ، جس کی قیمت عقد کے وقت دس درہم ہو۔(الدر المختار مع رد المحتار،جلد 4 ،صفحہ220 ، 222،مطبوعہ کوئٹہ)

     علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمۃ درمختار کی عبارت(قیمتہ عشرۃوقت العقد)کے تحت ارشاد فرماتے ہیں: ای وان صارت یوم التسلیم ثمانیۃ فلیس لھا الا ھو الخیعنی اگرچہ ادائیگی کے دن قیمت آٹھ درہم ہوجائے،عورت(عقد کے وقت)ذکر کیے گئے ہی کی مستحق ہوگی۔(الدر المختار مع رد المحتار ، جلد 4 ، صفحہ 222، مطبوعہ کوئٹہ )

     سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :”مہر شرعی کی کوئی تعداد مقرر نہیں،صرف کمی کی طرف حد معین ہے کہ دس درم سے کم نہ ہو اور زیادتی کی کوئی حد نہیں،جس قدر باندھا جائے گا ، لازم آئے گا۔ملخصا“ (فتاوٰی رضویہ،جلد 12،صفحہ165،مطبوعہ رضا فاونڈیشن ، لاھور)

     صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ مزید ارشاد فرماتے ہیں:” اگر درہم کے سوا کوئی اور چیز مہر ٹھہری ، تو اس کی قیمت عقد کے وقت دس درہم سے کم نہ ہو اور اگر اس وقت تو اسی قیمت کی تھی ، مگر بعد میں قیمت کم ہوگئی ، تو عورت وہی پائے گی ، پھیرنے کا اسے حق نہیں۔“ (بھار شریعت ، جلد 2 ، صفحہ 64 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم