مسجداورکعبہ کواللہ تعالی کاگھرکہنا

فتوی نمبر:WAT-296

تاریخ اجراء:27ربیع الآخر 1443ھ/03دسمبر 2021

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    جب اللہ تعالی مکان سے پاک ہے تو مسجد اور کعبہ کو اللہ کا گھر کیوں کہا جاتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کعبہ شریف اور اسی طرح مساجد کو بیت اللہ یعنی اللہ کا گھرکہنےکی وجہ یہ نہیں کہ مَعَاذَ اللہ وہ جگہیں اللہ عزوجل کا مکان ہیں اور اللہ عزوجل وہاں پر رہتا ہے،یہی آپ کی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے سوال کرنے کی نوبت آئی اس لئے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات مکان و زمان وغیرہ جمیع حوادث (تمام اشیاء جو پہلے نہیں تھی پھر  پیدا ہوئی)سے پاک ہے وہ تو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا لہٰذا جو اس کے لئے مکان ثابت کرے تو یہ کفر ہے۔ اب آپ کے خلجان کو دور کرنے کی طرف آتے ہیں کہ پھر مساجد اورکعبۃ اللہ کواللہ تعالیٰ کا گھر کیوں کہتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اضافت، تشریفی  کہلاتی ہے یعنی کعبہ شریف اور مساجد کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لئےخاص طور پراللہ تعالیٰ کی طرف نسبت  ہوتی ہے اور یہ بلا شبہ جائز ہے، قرآن و حدیث میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے ظاہر ہونے والی اونٹنی کو ”ناقۃ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی“، حضرت جبریل علیہ السَّلام کو ”روحنا یعنی ہماری روح “اور کعبہ شریف کو ”بیتی یعنی میرا گھر“فرمایا ہے، اسی طرح احادیثِ طیبہ میں تمام مساجد کو ” بیوت اللہ یعنی اللہ عزوجل کے گھر“فرمایا۔ یہ سب اضافتیں تشریفی ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف خصوصی  نسبت کرتے ہوئے ان چیزوں کی عظمت و شرافت کا اظہارہوتا ہے  اس وجہ سے کہ  ان جگہوں میں خاص طور پر اللہ تعالی کی عبادت کی جاتی اور اس کی رضا والے کام سرانجام دیے جاتے ہیں۔ لہٰذا کعبہ شریف اور مساجد کو تعظیم و تکریم کے پیش نظر ”اللہ کا گھر“کہنا جائز ہے،اس میں  کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

المتخصص  فی الفقہ الاسلامی

ابو رجا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی