Hazrat Ameer Muawiya Ke Mutaliq Pait Na Bharne Wali Riwayat Ki Wazahat

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق پیٹ نہ بھرنے والی روایت کی وضاحت

فتوی نمبر:WAT-816

تاریخ اجراء: 17شوال المکرم 1443ھ19/مئی 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بعض لوگ اِس حدیث شریف کو لے کر شانِ سیدنا امیرِ معاویہ رضی الله عنہ کو گھٹا رہےہیں،کہ آقا ﷺ نے آپ رضی الله عنہ کو بددعا دی۔حدیث یہ ہے۔

   حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ ۔"ترجمہ:محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی ۔ ۔ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں ۔ ۔ دونوں نے کہا : ہمیں امیہ بن خالد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، کہا : میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، کہا : آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی ( مقصود پیار کا اظہار تھا ) اور فرمایا : جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے آپ سے آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا : جاؤ ، معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے پھر آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔ (Sahih Muslim#6628)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ حدیث پاک صحیح مسلم شریف میں مذکور ہے مگر اس سے حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان پر کوئی اعتراض واقع نہیں ہوتا کہ اولا تو اہل عرب میں اس طرح کے کلمات رائج ہیں  مثلاً تیری ناک خاک آلود ہو، تیری ماں تجھ پر روئے  وغیرہ ذلک ان سے مقصود بد دعا نہیں بلکہ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ثانیا:بظاہر بددعا نظر آنے والے یہ کلمات حقیقت میں ان کے لئے دعا تھے  کہ احادیث طیبہ میں ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی ہے کہ ”اللھم  انما انا بشر فای المسلمین لعنتہ او سببتہ فاجعلہ لہ زکوٰۃ  و اجرا۔ “ترجمہ:اے اللہ میں ایک بشر ہوں تو میں جس مسلمان پر لعنت کروں یا برا کہوں(اور وہ اس کا اہل نہ ہو ) تو تو اس کے لئے اسے طہارت اور اجر کا سبب بنادے ۔(صحیح مسلم ، ج 2 ، ص323 ، مطبوعہ :قدیمی کتب خانہ کراچی)

   اس واقعہ میں بھی آپ چونکہ بددعا کے اہل نہیں تھے تو یہ بددعا نہیں بلکہ آپ کے لئے دعا تھی جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ پہلے نہایت غریب تھے مگر پھر اللہ عزوجل نے آپ کو مالدار کردیا حتی کہ آپ کے پاس سے حسنین کریمین کے لئے ہدایا یعنی تحائف جایا کرتے ۔لہٰذا اس حدیث سے آپ کی شان و عظمت ظاہر ہوتی ہے ، آپ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تفصیل بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب "امیرمعاویہ پرایک نظر"میں فرماتےہیں:"معترض نےاس حدیث کوسمجھنےمیں غلطی کی،کم ازکم یہ ہی سمجھ لیاہوتا،کہ جواخلاق مجسم صلی اللہ علیہ وسلم،گالیاں دینے والوں، پتھرمارنےوالوں کوبھی،بددعانہیں دیتے،وہ محبوب رحمۃ اللہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ،اس موقع پرامیرمعاویہ کوبلاقصورکیوں بدعادیتے۔کھانادیرتک کھانانہ شرعی جرم ہے،نہ قانونی، پھرسیدناابن عباس نےامیرمعاویہ سےیہ کہابھی نہیں،کہ آپ کوسرکاربلارہےہیں۔صرف دیکھ کرخاموش واپس آئے،اورحضورسےواقعہ عرض کردیا۔ پھرامیرمعاویہ کایہ قصورنہ خطا،اورحضوریہ بددعادیں،یہ ناممکن ہے۔ اتنا غورکرلینےسےہی اعتراض کرنےکی جراءت  نہ ہوتی۔اب اپنےاعتراض کاجواب سنو،محاورہ عرب میں اس قسم کے الفاظ پیارومحبت کےموقع پربولےجاتےہیں۔ان سےبدعامقصودنہیں ہوتی۔اور اگرمان بھی لیاجائے،کہ حضور نے امیرمعاویہ کوبدعادی،توبھی یہ بددعا،امیرمعاویہ کے لیےدعابن کرلگی۔اسی دعاکانتیجہ یہ ہوا،کہ اللہ تعالی نے امیر معاویہ کواتنا،بھرا،اوراتنامال دیاکہ انہوں نےسینکڑوں کاپیٹ بھردیا۔ایک ایک شخص کوبات بات پرلاکھوں روپیہ انعام دئیے،کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےرب سےعہدلیاتھا،کہ مولی،اگرمیں کسی مسلمان کو بلاوجہ لعنت یابددعاکردوں،تواسےرحمت،اجراورپاکی کاذریعہ بنادینا۔"(ملخصا،امیرمعاویہ پرایک نظر،ص79تا80،مطبوعہ قادری پبلیشرز)  

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

المتخصص  فی الفقہ الاسلامی

ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی