Iddat me nikah karne ka hukum

عدت میں کیے جانے والے نکاح کاحکم

فتوی نمبر:WAT-812

تاریخ اجراء: 16شوال المکرم 1443ھ18/مئی 2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   عدت میں نکاح کرنا حرام ہے تواگر کسی نے نکاح کر لیا تو کیا نکاح ہو جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عدت میں نکاح کرنا سخت ناجائزو حرام  اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے بلکہ عدت میں تونکاح کاپیغام دیناحرام وگناہ ہے  ۔اگرکسی نے عدت میں نکاح کیاتواس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ :

   اگر مرد کو نکاح کے وقت عورت کا عدت میں ہونا معلوم تھا تو یہ نکاح باطل ہوایہاں تک کہ اگرمیاں بیوی والے معاملات یعنی ہمبستری بھی ہوئی تو یہ زناہوااوراس دوسرے نکاح کی  کوئی عدت نہیں ،اوراس میں متارکہ کی بھی ضرورت نہیں فوراایک دوسرے سے جداہوجائیں اورپہلے شوہرکی اگرابھی عدت باقی ہے توعورت اسے گزارکراس دوسرے سے یاکسی اورسےنکاح کرسکے گی اوراگرپہلے شوہرکی عدت ختم ہوگئی ہے تو فورااس دوسرے سے یاکسی اور سے نکاح کرسکتی ہے ۔

   اور اگر عدت میں ہونا معلوم نہیں تھا تو یہ نکاح فاسد ہوا،اس صورت میں اگرہمبستری نہیں ہوئی تواس صورت میں بھی دوسرے نکاح کی کوئی  عدت نہیں اورمتارکہ ضروری ہے،خواہ دوسرے کی موجودگی میں کرے یاغیرموجودگی میں (یعنی شوہرکا عورت کے متعلق کہنا کہ میں نے تجھے یااسے چھوڑدیا ،یا عورت کا مردکے متعلق کہناکہ میں تجھ سے یااس سے جداہوگئی۔)اورمتارکہ   کے بعدوہی احکام ہوں گے جواوپرمذکورہوئے کہ پہلے شوہرکی اگرابھی عدت باقی ہے تواسے گزارکرعورت اس دوسرے سے یا کسی اورسے نکاح کرسکے گی اوراگرپہلے شوہرکی عدت ختم ہوگئی ہے تو فورااس دوسرے سے یاکسی اورسے نکاح کرسکتی ہے ۔

   اوراگر ہمبستری ہوئی تھی توآگے کسی اورسے نکاح کے لیے عدت لازم ہوگی اوراس صورت  میں بھی متارکہ ضروری  ہوگا،خواہ دوسرے کی موجودگی میں کرے یاغیرموجودگی میں  (یعنی شوہرکا عورت کے متعلق کہنا کہ میں نے تجھے یا اسے چھوڑدیا ،یا عورت کا مردکے متعلق کہناکہ میں تجھ سے یااس سے جداہوگئی۔)اوراس کے بعدعورت عدت گزار کرآگے کسی اورسے نکاح کرسکے گی ۔

   اوراس صورت میں اگراس دوسرے کے ساتھ ہی  نکاح کرناچاہے کہ جس کے ساتھ نکاح فاسدہواتھاتواگرپہلے شوہرکی عدت باقی ہے تو متارکہ کے بعدوہ عدت گزارکراس سے نکاح کرسکتی ہے اوراگرپہلے شوہرکی عدت ختم ہوگئی توابھی فورااس سے نکاح کرسکتی ہے ۔

   درمختارمیں نکاح فاسدکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:"وھوالذی فقدشرطامن شرائط الصحۃ کشھود" ترجمہ:اوریہ وہ نکاح ہے ،جس  میں صحت نکاح کی شرائط میں سے کوئی شرط مفقودہو مثلاگواہوں کاہونا۔

   اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے "ومثلہ ۔۔۔نکاح المعتدۃ۔۔۔بحر۔۔۔۔ أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا.۔۔۔اھ۔۔۔۔ وعلى هذا فيقيد قول البحر هنا ونكاح المعتدة بما إذا لم يعلم بأنها معتدة"ترجمہ:اورایسے ہی معتدہ کانکاح بھی نکاح فاسدہے ،یہ مسئلہ بحرمیں مذکورہے ۔بہرحال دوسرے کی منکوحہ اوراس کی معتدہ سے  نکاح کرکے دخول کیا تواس سے عدت لازم نہیں ہوگی اگراسے معلوم ہوکہ یہ دوسرےکی ہے کیونکہ کسی نے بھی  اس کے جوازکاقول نہیں کیاتویہ سرے سے منعقدہی نہیں ہوا۔ اوراس بناپربحرکاجومسئلہ ہے کہ معتدہ کانکاح فاسدہے اسے اس صورت کے ساتھ مقیدکیاجائے گاجبکہ اسے معتدہ ہونامعلوم نہ ہو۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب النکاح،ج04،ص 266،دارالمعرفۃ، بیروت (

   درمختارمیں نکاح فاسدکاحکم بیان کرتے ہوئے  فرمایا:"(و) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه دخل بهاأولا) في الأصح"ترجمہ:اورمردوعورت میں سے ہرایک کوفاسدنکاح ختم کرنے کااختیارہوتاہے اگرچہ دوسرے کی غیرموجودگی میں کرے،عورت کے ساتھ دخول ہواہویانہ ہوا،اصح قول کے مطابق۔

   فتاوی رضویہ میں ہے” اگربکر نے یہ جان بوجھ کر کہ ابھی عورت عدت میں ہے اس سے نکاح کرلیا تھا جب تو وہ نکاح نکاح ہی نہ ہوا زنا ہوا، تواس کے لئے اصلاً عدت نہیں اگرچہ بکر نے صدہا بار عورت سے جماع کیا ہوکہ زنا کاپانی شرع میں کچھ عزت ووقعت نہیں رکھتا عورت کو اختیار ہے جب چاہے نکاح کرلے ۔ اور اگر بکر نے انجانی میں نکاح کیا تو یہ دیکھیں گے کہ اس چار برس میں ا س نے عورت سے کبھی جماع کیا ہے یانہیں، اگر کبھی نہ کیا تو بھی عدت نہیں، بکر کے چھوڑتے ہی فوراً جس سے چاہے نکاح کرلے،اور جو ایک بار بھی جماع کرچکا ہے تو جس دن بکر نے چھوڑ ا اس دن سے عورت پر عدت واجب ہوئی جب تک اس کی عدت سے نہ نکلے دوسرے  سے نکاح نہیں کرسکتی، اور عدت طلاق کی چار مہینے دس دن نہیں یہ عدت موت کی ہے، طلاق کی عدت تین حیض کا مل ہیں یعنی بعد طلاق کے ایک نیا حیض آئے، پھر دوسرا، پھر تیسرا، جب یہ تیسرا ختم ہوگا اس وقت عدت سے نکلے گی اور اسے جس سے چاہے نکاح کرنا روا ہوگا (فتاوی رضویہ،ج 13،ص 302،303،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے” اگر اس دوسرے شخص کو وقت نکاح معلوم تھا کہ عورت ہنوزعدت میں ہے یہ جان کر اس سے نکاح کرلیا جب تو وہ زنائے محض تھا عدت کی کچھ حاجت نہیں نہ طلاق کی ضرورت بلکہ ابھی جس سے چاہے نکاح کرے جبکہ شوہر اول کی عدت گزر چکی ہو اور اگر اسے عورت کا عدت میں ہونا معلوم نہ تھا توطلاق کی اب حاجت نہیں مگر متارکہ ضرو ر ہے یعنی شوہرکا عورت سے کہنا کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا عورت کا اس سے کہہ دینا کہ میں تجھ سے جدا ہوگئی، اس کے بعد عدت بیٹھے عدت کے بعد جس سے چاہے نکاح کرے۔(فتاوی رضویہ،ج 11،ص 423،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

المتخصص  فی الفقہ الاسلامی

محمد عرفان مدنی عطاری