Kisi Peer Ka Lambay Baal Rakhna Kaisa Hai ?

پیرکالمبے بال رکھنااورحضورگیسودرازعلیہ الرحمۃ کودلیل بنانا

فتوی نمبر:WAT-800

تاریخ اجراء:12شوال المکرم 1443ھ14/مئی 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پیر کے بال لمبے ہونے چاہئیں ۔ کیوں کہ کئی بزرگوں کے لمبے بال ہوتے تھے جیسے حضور بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے بال اتنے لمبے تھے کہ بعض کو نیچے بچھاتے اور بعض  کو اوپر اوڑھ لیتے تھے۔ کیا ان کا اس طرح کہنا درست ہے ؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مرد (چاہے وہ پیر ہو یا پیر نہ ہو، اس ) کےلیے کندھوں سے نیچے بال رکھنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے کہ  اس میں عورتوں سے مشابہت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:«لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، ولعن المتشبهات من النساء بالرجال»“ترجمہ: اللہ تعالی کی لعنت ہوان مردوں پرجو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیارکریں اوران عورتوں پرجومردوں کے ساتھ مشابہت اختیارکریں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،ج11،ص252،مکتبہ ابن تیمیہ،القاھرۃ)

   حضرت بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے بالوں کو دلیل بنانا سوائے جہالت کے کچھ نہیں  اور آپ علیہ الرحمہ کے بارے میں یہ کہنا کہ سارے سر کے بال اتنے بڑے رکھے تھے کہ کچھ کو بچھا کر کچھ اوپر اوڑھ لیتے ‘ سراسر غلط ہے ۔ کیونکہ  آپ  علیہ الرحمہ نے ایک  مخصوص واقعہ کی وجہ سے  صرف ایک بال کو محفوظ رکھا تھا اور ایک بال کو   محفوظ رکھنا عورتوں سے مشابہت نہیں ہوتی اور نہ اتنا لمبا بال عورتیں رکھتی ہیں۔ سیدی اعلی حضرت امام اہل  سنت  امام احمد رضا خان علیہ  الرحمہ ملفوظات شریف میں اسی طرح کے سوال کےجواب  میں حضرت  بندہ نواز علیہ الرحمہ کے گیسو رکھنے کی وجہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”اس ایک گیسو کو کہ ایسی جلیل نعمت کا یاد گار تھا اور اسے ایسی تجلی رحمت نے بڑھایا تھا نہ ترشوایا ۔ اسے تشبہ سے کیا علاقہ (یعنی تعلق)! عورتوں کا ایک گیسو بڑا نہیں  ہوتا ، نہ اتنا دراز (یعنی لمبا) اور (نہ ) اس کے محفوظ رکھنے میں یہ راز۔“ (ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم، ص 299، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

المتخصص  فی الفقہ الاسلامی

ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری