Kya Kisi Aik Imam ki Taqleed Zaroori Hai ?

کسی ایک امام کی تقلیدکیوں ضروری ہے ؟

فتوی نمبر:WAT-856

تاریخ اجراء:29شوال المکرم 1443ھ31/مئی2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر چاروں امام برحق ہیں، تو ان میں سے کسی ایک کی ہی پیروی کیوں ضروری ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بلا شبہ چاروں امام(امام ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی ، اورامام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین) حق پر ہیں اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک سمندر سے چار مختلف دریا نکلتے ہیں،جن کے راستے اور نام تو جدا ہیں، لیکن ان تمام دریاؤں میں ایک ہی سمندر کا پانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم پر ان میں سے کسی ایک امام کی پیروی اس لئے ضروری ہے کہ اگر ایسا نہ ہو، تو ہر شخص اپنے نفس کی پیروی کرے گا اور جب دل چاہے گا جس امام کا مسئلہ آسان اور نفس کی خواہش کے مطابق اسے محسوس ہوگا اس پر عمل کرلے گااور یہ شریعتِ مطہرہ کا مذاق اڑانا ہے کیونکہ بہت سےمسائل ایسے ہیں کہ بعض ائمّہ کے نزدیک حلال اور وہی مسائل بعض ائمّہ کے نزدیک حرام ہیں اور یہ نفس کا پیرو کارصبح ایک امام کی پیروی کرتے ہوئے ایک مسئلہ کو حرام سمجھ کراس لئے عمل نہ کرے گا کہ اس میں اس کے نفس کا مفاد نہیں ہے اور جب شام کو بلکہ اسی لمحے اس میں اپنا مفاد نظر آئے گاتو دوسرے امام کا مذہب اختیار کرتے ہوئے اسی مسئلہ کو اپنے لئے حلال کر لے گا اور اس طرح فقط خواہشِ نفس کی بنیاد پر احکامِ شرعیہ کو کھیل بناکر پامال کرتا پھرے گا اس لئے انسان کو خواہشِ نفس پر عمل کرنے کے بجائے دین وشریعت پر عمل کرنے کیلئے کسی ایک امام مجتہد کا مُقلّد ہونا ضروری ہے ورنہ وہ فلاح وہدایت ہرگز نہ پاسکے گا ۔

   اس کو ایک دُنیاوی مثال سے یوں سمجھیں کہ اگر کسی منزل پر پہنچنے کے مختلف راستے ہوں تو منزل پر وہی شخص پہنچے گا جو ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرے اور جو کبھی ایک راستہ پر چلے ،کبھی دوسرے راستہ پر،پھر تیسرے پر پھر چوتھے پر تو ایسا شخص راستہ ہی ناپتا رہ جائے گا کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکے گا یہی حال اس شخص کا ہوگا جو کسی ایک امام کی تقلید کا دامن نہ تھام لے بلکہ کسی مسئلہ میں کبھی کسی امام کی پیروی کرے اور کبھی دوسرے کی ،پھر تیسرے کی پھر چوتھے کی تو وہ منزلِ  مقصود تک نہیں پہنچ سکے گا بلکہ خواہشِ نفس کی خاطر راستہ ناپتا ہی رہ جائے گا اور راہِ منزل سے گم ہوکر گمراہی واندھیرے میں جاپڑے گا۔

   نیزکسی ایک امام کی تقلیداس لیے بھی ضروری ہے کہ اگرایک وقت میں سبھی کی تقلیدکرے گاتوایسابھی ہوگاکہ  کسی ایک کے مطابق بھی عبادت درست نہیں ہوگی مثلاکسی  باوضوشخص کوسبیلین کے علاوہ کسی مقام سے بہنے کی مقدارخون نکلااوراس نے کسی عورت کو بلاحائل چھو بھی لیااوراونٹ کاگوشت بھی کھایا،اورہتھیلی کے اندرونی حصے سے شرمگاہ کوبھی چھولیا،اب اس نے یہ سوچ کروضونہیں کیاکہ امام شافعی  علیہ الرحمۃ وامام مالک  کےنزدیک سبیلین کے علاوہ کسی مقام سے بہنے کی مقدارخون نکلنے سے وضونہیں ٹوٹتا،لہذااس مسئلے میں،میں ان کی بات مان لیتاہوں ،اورامام اعظم علیہ الرحمۃ  کے نزدیک عورت کوچھونے سے وضونہیں ٹوٹتا،لہذااس مسئلے میں امام اعظم علیہ الرحمۃ کی بات مان لیتاہوں اور اونٹ کاگوشت کھانے سے امام شافعی اورامام اعظم اورامام مالک علیہماالرحمۃ کے نزدیک وضونہیں ٹوٹتالہذا اس مسئلے میں ،میں ان کی بات مان لیتاہوں ،اور شرمگاہ کوچھونے سے امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک وضونہیں ٹوٹتا، لہذااس مسئلے میں ،میں ان کی بات مان لیتاہوں ۔اب  نیاوضوکیے بغیرہی اس نے نمازپڑھناشروع کردی ،اپنی طرف سے اس نے سبھی کی باتوں پرعمل کرناچاہالیکن درحقیقت کسی ایک کی بات پربھی عمل نہیں کرسکا،اب کسی امام کے نزدیک بھی اس کی نمازدرست نہیں ہوگی کہ کسی وجہ کی بناء پرامام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک اس کاوضوٹوٹ گیااور کسی وجہ کی بناء پردوسرے اماموں کے نزدیک ٹوٹ گیایعنی خون کی وجہ سے امام اعظم کے نزدیک وضونہیں رہا،عورت کوہاتھ لگانے سے امام شافعی وغیرہ  کے نزدیک ،اونٹ کاگوشت کھانے سے امام احمدکے نزدیک اورشرمگاہ کو چھونے سے امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد کے نزدیک ۔اورنتیجۃ کسی ایک کے نزدیک بھی وہ باوضونہیں اور بے وضونماز کو کوئی بھی درست  نہیں کہتا۔

   تقلید کی شرعی حیثیت اور اس حوالے سے بنیادی معلومات کے لیے  دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر موجود مضمون بعنون :”تقلید کی ضرورت و اہمیت“ کا مطالعہ کیجئے۔ درج ذیل لنک کے ذریعے بھی اس مضمون کو پڑھا جا سکتا ہے۔

https://www.dawateislami.net/islamicportal/ur/farzuloom/taqleed-ki-zarorat-wa-ahmiat

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

المتخصص  فی الفقہ الاسلامی

عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ