بیٹی کو وراثت سے حصہ نہ دینا کیسا؟

مجیب:مولانا آصف مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10388

تاریخ اجراء:11جمادی الاخریٰ 1442ھ/25جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ زیدکاانتقال ہوا،اس نےورثاء میں تین بیٹے اوردوبیٹیاں چھوڑیں ،جبکہ اس کے والدین ،زوجہ ،دادا،دادی اورنانی اس کی حیات میں ہی انتقال کرگئے تھے،اس کے بعد اس کے بیٹوں میں سے دو کاانتقال ہوا،جائیداد اب بیٹوں کی اولاد کے  پاس ہے ،اب تک سب لوگ ان سے حصہ لے چکےہیں ،صرف زیدکی بیٹیوں میں سے ایک  بیٹی ہندہ کاحصہ اس کے بھتیجوں کے قبضہ میں  ہے،جوخاندانی دشمنی کے باعث اسے نہیں دے رہے۔ہندہ کے حصے میں کئی ایکڑزمین آتی ہے،لیکن جن  رشتہ داروں کے پاس  ہے، وہ باربارمطالبے کے باوجودبھی حصہ  نہیں دے رہے۔ شرعی رہنمائی  فرمائیں اس طرح کرناکیساہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    وراثت میں ملنے والی جائیدادمیں سے کسی وارث کابلاوجہ اپنے شرعی حصے سے زیادہ حصہ لینا،دوسرے ورثاء کے حصے خود رکھ لینا اوردوسرےورثاء کوان کے شرعی حصے سے محروم کرناظلم وغصب  ہے، جوسخت ناجائز و حرام اوراحکامِ الٰہیہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔ایسے افراد کے لیے قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔لہذاجو ورثاء ہندہ کے حصے پر قابض ہیں، ان پر فرض ہے کہ ہندہ کاجو حصہ بنتا ہے مالکانہ حقوق کے ساتھ اس کے سپرد کردیں کہ غیر کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا حرام ہے۔ نیز اس  کے حصے پر ناحق قبضہ کر کے  جو اذیت پہنچائی، اس کی معافی بھی مانگیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی اپنے اس حرام فعل سے توبہ کریں۔

    اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے﴿ وَ تَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا ، وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا﴾ترجمہ کنزُالعِرفان:’’اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو اور مال سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہو۔‘‘

                    (پارہ30 ،سورۃ الفجر،آیت 19،20)

    تفسیرصراط الجنان میں ہے:’’ ﴿وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا: اور میراث کا سارا مال جمع کرکے کھاجاتے ہو۔﴾ یہاں  کفار کی تیسری خرابی اور ذلت کا بیان ہے کہ تم میراث کا مال کھاجاتے ہو اور حلال و حرام میں  تمیز نہیں  کرتے اور عورتوں  اور بچوں  کو وراثت کا حصہ نہیں  دیتے، بلکہ اُن کے حصے خود کھا جاتے ہو، جاہلیت میں یہی دستور تھا۔اس بیان کردہ ظلم میں  بہت سی صورتیں  داخل ہیں  اور فی زمانہ جو چچا تایا قِسم کے لوگ یتیم بھتیجوں  کے مال پر قبضہ کرلیتے ہیں  یا روٹین میں  جو بہنوں ، بیٹیوں یا پوتیوں  کو وراثت نہیں  دی جاتی وہ بھی اسی میں  داخل ہے کہ شدید حرام ہے۔‘‘

(تفسیرصراط الجنان ،جلد10،صفحہ668،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    میراث کے احکام کو  تفصیلاً بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾ترجمہ کنزُالعِرفان:’’یہ اللہ کی حدیں  ہیں اور جو اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے تو اللہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گےاور یہی بڑی کامیابی ہےاور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (تمام) حدوں سے گزر جائے ،تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا،جس میں (وہ) ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘

        (پارہ 4 ،سورۃ النساء،آیت13،14)

     ناحق کسی کی زمین دبا لینے کے حوالے سے حدیثِ پاک میں آتا ہے، چنانچہ حضرت محمد بن ابراہیم روایت کرتے ہیں:’’عن أبی سلمۃ بن عبد الرحمن، وکانت بینہ  و بین    أناس   خصومۃ        فی أرض،       فدخل علی عائشۃ     فذکر   لھا      ذلک،      فقالت :   یا أبا سلمۃ، اجتنب الأرض، فإن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من ظلم قید شبر طوقہ من سبع أرضین‘‘ یعنی حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن  رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ان کا کچھ لوگوں کے ساتھ کسی زمین کا جھگڑا تھا۔ انہوں نے حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہرضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حاضر ہو کر یہ بات ذکر کی ،تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اے ابو سلمہ! زمین سے اجتناب کرو کہ بیشک  رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک بالشت بھر زمین دبانے کا ظلم کیا اس زمین کا اتنا حصہ سات زمینوں تک کا طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔

(صحیح البخاری،کتاب المظالم و القصاص ،باب اثم من ظلم شیٔا من الارض،جلد1، صفحہ432 ،مطبوعہ لاھور)

    حضرت سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’من أخذ شیٔاًمن الأرض بغیر حقہ خسف بہ یوم القیٰمۃ إلی سبع أرضین‘‘یعنی جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ بھی ناحق لے لیا قیامت کے دن زمین کے ساتویں طبق تک دھنسا دیا جائے گا۔         

(صحیح البخاری،کتاب المظالم و القصاص ،باب اثم من ظلم شیٔا من الارض،جلد1، صفحہ432 مطبوعہ لاھور)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ اس طرح کی ا حادیث ذکرکرنے کے بعدفرماتے ہیں :”حدیثیں اس باب میں متواترہیں اللہ قہار وجبار کے غضب سے ڈرے، ذرا من ،دو من، نہیں، بیس پچیس سیرہی مٹی کے ڈھیلے گلے میں باندھ کر گھڑی دو گھڑی لئے پھرلے۔ اس وقت قیاس کرے کہ اس ظلم شدید سے بازآنا آسان ہے یازمین کے ساتویں طبقوں تک کھود کر قیامت کے دن تمام جہان کا حساب پورا ہونے تک گلے میں، معاذاللہ یہ کروڑوں من کا طوق پڑنا اور ساتویں زمین تک دھنسا دیا جانا، والعیاذباللہ تعالیٰ۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ665،رضافاونڈیشن،لاھور)

    بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:”لا یجوز التصرف فی ملک الغیر بغیر إذنہ“ ترجمہ: غیرکی ملک میں اُ س کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا،جائز نہیں ہے۔     

(بدائع الصنائع ،کتاب النکاح،فصل بیان شرائط الجواز والنفاذ،جلد2،صفحہ234،مطبوعہ بیروت)

    امام اہلسنت،اعلیٰ حضرت،الشاہ احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ  کسی کی زمین دبانے سے متعلق ایک سوال کے  جواب میں فرماتے ہیں:”صورت  مستفسرہ میں عمروا ور اس کے ساتھی سب ظالم اور مرتکب کبیرہ ومستحق عذاب شدید ہیں۔۔زید پر فرض ہے کہ بکر کی زمین اسے واپس دے اور زید وعمرو اور اس کے سب معاونوں پر فرض ہے کہ بکر کوراضی کریں اور اس سے اپنا قصو رمعاف کرائیں، ورنہ روز قیامت اس کے مستحق ہوں گے کہ ان کی نیکیاں بکرکودی جائیں، بکر کے گناہ ان کے سرپر رکھے جائیں اوریہ جہنم میں ڈال دئے جائیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد19،صفحہ 671،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)                                   

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم