جائیداد میں لڑکیوں کو عاق کرنا کیسا؟

مجیب:   مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رَجَبُ المُرَجب 1442 ھ / مارچ 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کیا جائیداد میں لڑکیوں کو عاق کیا جا سکتا ہے؟

سائل : دانش اظہر(کہوٹہ ، راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      ’’عاق“ نافرمانی کرنے والے کو کہتے ہیں ، جو والدین کی نافرمانی کرتا ہے ، وہ خود ہی عاق و گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے ، والدین کے عاق کرنے کا اس میں کوئی دخل نہیں ، لیکن عاق کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس کو وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا ، آج کل لوگ اپنی اولاد کو عاق کہہ کر وراثت سے محروم کر دیتے ہیں ، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے کوئی شرعی وارث وراثت سے محروم ہوگا ، بلکہ ایسا کرنے والا شخص گناہ گار ہوگا ، کیونکہ وراثت شریعت کا مقرر کردہ حق ہے ، جو کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوسکتا ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں لڑکا ہو یا لڑکی ، اسے اپنی وراثت سے عاق کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اور کسی کے کہنے سے وہ اپنے حصے سے محروم بھی نہیں ہوں گے ، بلکہ شرعی طور پر ان کا جتنا حصہ بنتا ہے ، وہ اس کے مستحق ہوں گے۔

      نیز اسی طرح اپنی جہالت یا رسم و رواج کی وجہ سے لڑکیوں کوان کا حصہ نہ دینا جیسا کہ بعض جگہ لڑکیوں کو مطلقاً ان کا حصہ دیا ہی نہیں جاتا ، یہ بھی حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے کہ یہ کسی کے مال کو ناحق و باطل طور پر کھانے کی ایک صورت اور کفار کا طریقہ ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم