زندگی میں ہی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا

مجیب:   مولانانوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:  مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:    ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو کیا حکم ہے؟ بیٹوں اور بیٹیوں کو کتنا کتنا حصّہ ملے گا؟ اگر کوئی بعض اولاد کو حصّہ دے بعض کو نہ دے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز اولاد والد سے اس کی زندگی میں اپنے حصے کا زبردستی مطالبہ کر سکتی ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ہر شخص کواپنے تمام مَملُوکہ اموال کے بارے میں اپنی زندگی میں اختیار ہوتا ہے، چاہے کُل مال خرچ کر ڈالے یا کسی کو دے دے، اس کی زندگی میں اس کے مال میں اس کی زوجہ، اولاد یا کسی اور کا بطورِ وراثت کوئی حق نہیں،لہذا اس کا زبردستی مطالبہ بھی اپنے باپ سے نہیں کر سکتے، البتہ اگرکوئی اپنا مال اپنی زندگی میں اولاد میں تقسیم کرے تو بہتر ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں میں سب کو برابر برابر دے کیونکہ بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دُگنا وِراثت میں ہوتا ہے اور وراثت مرنے کے بعد ہوتی ہے،البتہ اگر بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دگنا دیا تو یہ بھی ناجائز نہیں ہے، اور اگر اولاد میں سے کوئی فضیلت رکھتا ہو مثلا طالبِ علمِ دین ہو، عالِم ہو یا والِدین کی خدمت زیادہ کرتا ہو تو اس کو زیادہ دینے میں حرج نہیں اوراولاد یا دیگر حقیقی وُرثاء میں سے بعض کو وِراثت سے محروم کرنے کی نیت ہو تو دوسروں کو دےدینا جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم