Aurat Ka Wirasat Mein Hissa Mard Se Kam Kiyon Hai?

عورت کا وراثت میں حصہ مرد سے کم کیوں ہے ؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-9840

تاریخ اجراء:02رجب المرجب1440ھ/10مارچ2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت کو وراثت میں مرد سے کم حصہ کیوں دیا جاتا  ہے؟

سائل : نعمان امداد

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مسلمان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہرحکم کو دل و جان سے قبول کرے کہ اسلام کا معنی ہی سر تسلیم خم کرنا ہے ۔نیز اللہ تعالی کے احکام  میں ہزار ہا حکمتیں ہیں، ہر حکم  کی حکمت کوہم اپنی  ناقص عقل اور ناقص علم کے ذریعے سمجھ جائیں یہ ضروری نہیں،لہٰذا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے بہر حال اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرنے میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

    جہاں تک وراثت میں مرد کو عورت سے زیادہ حصہ ملنے کی بات ہے ۔ اول تو یہ ذہن نشین رہے کہ ہر ہر مسئلے میں ایسا نہیں ہوتا کہ مرد کو زیادہ  اور عورت کو کم حصہ ملے بلکہ وراثت کے مسئلے کی  ورثاء کے اعتبار سے مختلف صورتیں بنتی ہیں اور بعض صورتوں میں عورت کو مرد سے زیادہ حصہ  بھی مل سکتا ہے ۔ جیسے میت نےورثا میں ماں،  ایک بیٹی ، ایک پوتی اور ایک چچا چھوڑا ہو ، تو کل مال کو 6 حصوں میں تقسیم کر کے ماں کو 1 حصہ ، بیٹی کو 3 حصے ، پوتی کو ایک حصہ اور چچا کو 1 حصہ ملے گا۔ اس کی صورت یوں بنے گی :

مسئلہ:6

میـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

ماں     بیٹی     پوتی            چچا

6/1   2/1   6/1           عصبہ

1      3      1              1

     اگرمرنے والے نے  ماں ، 2 حقیقی بہنیں اور چچا چھوڑ اہو ، تو کل مال کو 6 حصوں میں تقسیم کر کے ماں کو1حصہ ، دونوں بہنوں کو 4 حصے اور چچا کو 1 حصہ ملے گا۔اس کی صورت یوں بنے گی :

مسئلہ6

میــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

ماں     2 حقیقی بہنیں          چچا

6/1       3/2                       عصبہ

1           4                 1

    یونہی مرنے والے نے اگر ایک بیوہ ، 2 بیٹیاں ، ماں اور چچا چھوڑے ہوں ، تو کل مال کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو 3 حصے ، دونوں بیٹیوں کو 16 حصے ، ماں کو 4 حصے اور چچا کو صرف 1 حصہ ملے گا۔صورت یوں ہوگی:

مسئلہ 24

میــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

ماں     بیوہ     2 بیٹیاں               چچا

6/1   8/1   3/2           عصبہ

4      3      16            1

    الغرض متعدد ایسی صورتیں ہیں ، جن  میں عورتوں کو مردوں کے برابر یا زیادہ حصہ ملتا ہے ، بلکہ بعض صورتیں ایسی بھی بنتی ہیں کہ مرد کو کچھ نہیں ملتا ، صرف عورتوں کو ہی ملتا ہے ۔ مثلا کسی نے ماں ، ایک بیوہ ، دو  بہنیں اور بھتیجا وارث چھوڑا ہو ، تو کل مال کو 13 حصوں میں تقسیم کر کے ماں کو 2 حصے ، بیوہ کو 3 حصے اور دونوں بہنوں کو 8 حصے دیں گے اور بھتیجے کو کچھ نہیں ملے گا ،کیونکہ بھتیجا عصبہ میں سے ہے اور عصبہ کو ذوی الفروض سے بچنے والا مال ملتا ہے ، اگر کچھ مال نہ بچے تو عصبہ کو کچھ نہیں ملتا ۔ اس مثال کا مسئلہ یوں بنے گا:

    مسئلہ:12ع13

میــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت

ماں     بیوہ             2 بہنیں               بھتیجا

6/1   4/1           3/2           محروم

2      3              8

    ہاں بعض صورتوں میں عورت  کو مرد کے مقابلے میں کم  حصہ ملتا ہے جیسے سگے  بہن بھائی ہوں تو بھائی کے دو حصے اور بہن کا ایک حصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹا بیٹی ہو تو بیٹی کا ایک حصہ اور بیٹے کے دو حصے ہوتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یُوْصِیْكُمُ  اللّٰهُ  فِیْۤ  اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ  مِثْلُ  حَظِّ  الْاُنْثَیَیْنِ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: ’’ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں ، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ۔‘‘

(پارہ 4 ، سورۃ النساء ، آیت 11 )

    اس حکم الہٰی کی متعدد حکمتیں علمائے کرام نےبیان فرمائی ہیں،جن میں سے چند حکمتیں درج ذیل ہیں:

    پہلی حکمت:

    عام طور پر مرد کے ذمہ لازم آنے والے اخراجات عورت کے ذمہ لازم آنے والے اخراجات کے مقابلے میں زیادہ ہوتے  ہیں ، کیونکہ لڑکی کا نفقہ شادی سے پہلے اس کے باپ پر لازم ہوتا ہے اور شادی کے بعد شوہر پر لازم ہوتا ہے ، جبکہ مرد پر اپنے خرچ کے ساتھ ساتھ بیوی بچوں کا  نفقہ بھی لازم ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں والدین کا نفقہ بھی لازم ہوتا ہے۔  اگرچہ بعض صورتوں میں عورت پر بھی والدین کا نفقہ لازم ہوجاتا ہے لیکن اس کی نوبت کم ہی آتی ہے، لہٰذا مرد کو عورت کے مقابلے میں مال کی زیادہ حاجت ہے ، اس وجہ سے مرد کو عورت سے زیادہ حصہ دیا گیا۔

    دوسری حکمت:

    عورت میں عقل و فہم  کم ہونے کے ساتھ ساتھ، اس کی خواہشات عموماً بہت زیادہ ہوتی  ہیں ، اگر عورت کو مال زیادہ ملے گا ، تو عورت اس سے ناجائز کاموں کی طرف جلدی مائل ہو گی ، جس سے فساد برپا ہو گا ، جبکہ مردکی خواہشیں عموماً عورت سے کم ہوتی ہیں اور مرد  عورت کے مقابلے میں زیادہ سوچ سمجھ کر مال خرچ کرتا ہے ، اس وجہ سے مرد کو عورت سے زیادہ حصہ دیا گیا ۔

    تیسری حکمت:

    مرد  عام طور پر عورت کے مقابلے میں اپنا  مال نیک کاموں میں زیادہ خرچ کرتا ہے ۔ مثلاً غریبوں، یتیموں، بیواؤں، مصیبت زدوں  کی مدد کرنا، مسجد و مدرسہ  کی تعمیر میں حصہ لینا، مسافر خانہ و پُل بنوانا وغیرہ، کیونکہ مردکا  گھر سے باہر نکلنااور لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا زیادہ ہوتا ہےلہٰذا اسے ان نیک کاموں میں خرچ کرنے کے مواقع زیادہ ملتے ہیں ، جبکہ عورت کا  اکثر وقت گھر میں گزرنے  کی وجہ سے وہ نیک کاموں میں حصہ کم ہی ملا پاتی ہے۔

    چوتھی حکمت:

    وراثت میں عورتوں کو کم حصہ ملنے کی بات سمجھنے کے لئے یہ بات سامنے رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے عورت کے مقابلے میں مرد کو شرف زیادہ عطا کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے : ﴿ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾  ترجمہ کنز الایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی۔

(پارہ 5 ، سورۃ النساء، آیت  34)

    وراثت میں اس کو زیادہ حصہ ملنا بھی ایک شرف اور فضلیت ہی کا پہلو ہے ۔ مرد کو کن کن مقام پر عورت کے مقابلے پر فضیلت حاصل ہے ؟ اس کی چند مثالیں یہ ہیں :

1:مرد کو زیادہ عقل دی گئی ہے ۔

2:مرد عزم کا زیاد  پختہ ہوتا ہے ۔

3:مرد عورت سے زیادہ دور اندیش ہوتا ہے ۔

4:مرد کو جسمانی طاقت و قوت زیادہ دی گئی ہے ۔

5:مرد  نماز روزے کی کثرت میں زیادہ قوی ہے ۔

6:منصب نبوت مرد کے حصے میں آیا ہے ۔

7:خلافت کبری  بھی مرد ہی کا حق ہے ۔

8:نماز کی امامت ،اذان،خطبہ تکبیرات تشریق بھی مرد ہی ادا کرتا ہے ۔

9:حدود و قصاص میں صرف مرد ہی گواہ بن سکتا ہے۔

10:اصحاب فرائض کے بعد وراثت کے دوسرے حق دار عصبات ہیں اور ان میں سب کے سب مرد ہی ہیں۔

11:عقدہِ نکاح کا مالک مرد کو بنایا گیا ہےیعنی  عورت اپنے آپ کو طلاق نہیں دے سکتی کہ یہ منصب صرف مرد کا ہے۔

12:مرد ہی سے نسب چلتا ہے،مرد کو داڑھی اور عمامے کی زینت نصیب ہوئی ،مردوں پر عورتوں کا نفقہ لازم ہوا۔

    ان تمام باتوں کی روشنی میں پتا یہ چلا کہ جس طرح مرد کو دیگر کئی اعتبار سے عورت پر فوقیت حاصل ہے ، اسی طرح وراثت میں بھی اسے فوقیت دی گئی ہے ۔

    احکام الہیہ کی حکمتیں سمجھ آئیں یا نہ آئیں بہر حال انہیں  دل و جان سے قبول کرنا لازم ہے۔ جو حکمتیں اوپر بیان ہوئیں ، یہ علماء  کے کلام سے مستفاد ہیں ۔ اگر یہ سمجھ نہ آئیں ، تو یہ بات یاد رکھی جائے کہ بندے اپنی طاقت و علم کے مطابق جو بیان کر سکتےتھے ، وہ بیان ہوا ، لیکن اللہ تعالی کا بیان کردہ حکم  ہی درست ہے ، اس میں کوئی خامی نہیں ہو سکتی ۔

    ایک مسلمان کا کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟ اس تعلق سے اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:” احکام  الہی میں چون و چرا نہیں کرتے ، الاسلام گردن نہادن نہ زبان بجرأت کشادن (اسلام ، سر تسلیم خم کرنا ہے ، نہ کہ دلیری کے ساتھ لب کشائی  کرنا ) بہت احکام الہیہ تعبدی  ہوتے ہیں اور جو معقول المعنی ہیں ، ان کی حکمتیں بھی من و تو کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ غرض ایسے بیہودہ سوالوں کا دروازہ کھولنا علوم و برکات کا دروازہ بند کرنا ہے ، مسلمان کی شان یہ ہے : ﴿ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الْمَصِیۡرُ﴾ترجمہ کنز الایمان:ہم نے سنا اور مانا ،تیری معافی ہو، اے رب ہمارے ! اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔“

(فتاوی رضویہ ، ج13، ص297، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ وراثت میں عورت کا حصہ کم ہونے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:”والجواب عنہ من وجوہ ، الاول ان خروج المراۃ اقل لان زوجھا ینفق علیھا وخروج الرجل اکثر لانہ ھو المنفق علی زوجتہ ، ومن کان خروجہ اکثر فھو الی المال احوج ، الثانی ان الرجل اکمل حالا من المراۃ فی الخلقۃ وفی العقل وفی المناصب الدینیۃ مثل صلاحیۃ القضاء والامامۃ وایضا شھادۃ المراۃ نصف شھادۃ الرجل ومن کان کذلک وجب ان یکون الانعام علیہ ازید ، الثالث ان المراۃ قلیلۃ العقل کثیرۃ الشھوۃ فاذا انضاف الیھا المال الکثیر عظم الفساد ۔وحال الرجل بخلاف ذلک ، والرابع ان الرجل لکمال عقلہ یصرف المال الی ما یفیدہ الثناء الجمیل فی الدنیا والثواب الجزیل فی الآخرۃ نحو بناء الرباطات واعانۃ الملھوفین والنفقۃ علی الایتام والارامل ، وانما یقدر الرجل علی ذلک لانہ یخالط الناس کثیرا والمراۃ تقل مخالطتھا مع الناس فلا تقدر علی ذلک“خلاصہ اوپر گزرا ۔

(تفسیر کبیر ، سورۃ النساء ، آیت 11، ج3، ص511-512، لاھور)

    مرد کو وراثت میں زیادہ حصہ ملنے کی حکمت کے متعلق روح المعانی میں ہے:”والحکمۃ فی انہ تعالی جعل نصیب الاناث من المال اقل من نصیب الذکور نقصان عقلھن ودینھن کما جاء فی الخبر مع ان احتیاجھن الی المال اقل لان ازواجھن ینفقون علیھن وشھوتھن اکثر فقد یصیر المال سببا لکثرۃ فجورھن“ ترجمہ:مردوں کو زیادہ اور عورتوں کو کم حصہ دینے میں حکمت ، عورتوں  کے دین اور عقل کا ناقص ہونا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے نیز عورتوں کو مال کی حاجت بھی کم ہے کیونکہ ان کے شوہر ان پر خرچ کرتے ہیں نیز عورتوں کی خواہشات زیادہ ہیں تو مال زیادہ ہونا ، ان کے گناہ زیادہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔

(روح المعانی ، سورۃ النساء ، آیت 11، ج4، ص580، کوئٹہ)

    مرد کو میراث میں عورت سے زیادہ حصہ ملنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”اس لیے کہ بیٹی کے ذمہ اپنا خرچ ہے  نہ دوسروں کا ، شادی سے پہلے اس کا خرچ باپ کے ذمے ہے اور شادی کے بعد خاوند کے مگر بیٹے پر اپنا بوجھ بھی ہے اور بیوی بچوں کا بھی ،زیادہ خرچ والے کو زیادہ حصہ دلوایا گیا ۔ نیز مرد عورت سے افضل ہے ، اسی لیے نبوت ، امامت ، قضاء مردوں کے لیے ہے ، عورتوں کے لیے نہیں ۔ نیز عورت کی گواہی مرد سے آدھی ہے ، اس لیے اس کی میراث بھی مرد سے آدھی رکھی گئی ۔ نیز عورت کی عقل کم شہوت زیادہ ہے ، اس حالت میں اگر اسے مال کثیر  دیا جائے تو فساد ہی برپا ہو گا۔“

(تفسیر نعیمی ، ج4، ص508، مکتبہ اسلامیہ ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم