Jaidad Se Aaq Karne Par Aulad Ka Hissa Khatam Ho Jaye Ga ?

جائیداد سے عاق کرنے پر اولاد کا حصہ ختم ہو جائے گا؟

مجیب:محمد طارق عطاری  مدنی

مصدق:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Faj-7532

تاریخ اجراء:20جمادی الاولیٰ1444ھ/13جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے ، اس نے اپنے بیٹے کو عاق کردیا تھا،تو کیا اسے مرحوم کی جائیداد سے حصہ ملے گا؟اور ان کے بیٹے نے پسند کی شادی کرلی ہو، تو کیا پسند کی شادی کرنے کے سبب وہ اپنے والد کی جائیداد سے محروم ہوجائے گا؟نیز کیا اس شخص کے انتقال کے بعد ان کے کل مال کی مالک ان کی زوجہ ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وارث  کا پسند کی شادی کے سبب جائیداد سے محروم ہونا ،یا والد کے عاق کر دینے سے جائیداد سے محروم ہونا ، شرعاً یہ دونوں چیزیں کسی کو جائیداد سے محروم کرنے کا سبب نہیں کہ قوانینِ شرعیہ کی رو سے چار چیزیں جائیداد سے محروم کرنے کا سبب بنتی ہیں:غلام ہونا،مورث کوناحق  قتل کرنا ،دِین کا مختلف ہونا اور وطن  کا مختلف ہونا ۔  جیسے حربی کافرجو دار الحرب  میں مرا ،اس کا ذمی کافر بیٹا جو دارالاسلام میں رہتا ہو، مرنے والے حربی کافر  کا وارث نہیں ہوگا۔اور ان چار چیزوں میں سے مذکورہ دونوں اسباب نہیں، لہٰذا اس شخص کا بیٹاپسند کی شادی کرنے کے سبب یا ان کے اسے عاق کر دینے کے سبب ان کی جائیدا د سے محروم نہیں۔

   عربی زبان میں عاق ایسی اولاد کو کہتے ہیں جو ماں یا باپ کو تکلیف دے یا ناحق ناراض کرے، توجو ماں یا باپ کا نافرمان ہے ، وہ عاق ہے، اگرچہ ماں باپ نے اسے عاق نہ کیا ہو اور ماں باپ کا نافرمان دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں جہنم کے عذاب کا سزاوار ہے ۔اور اگر کوئی ماں باپ کا مطیع و فرمانبردار ہے، تو وہ ہر گز عاق نہیں۔  ایسی اولاد کو ماں یا باپ لاکھ عاق کہیں یا لکھیں ، یہ عاق نہیں ۔اور عوام نے جو یہ سمجھ رکھا ہے کہ والدیا والدہ  کےاپنی اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی  کو عاق کہنے یا عاق لکھنے سےوہ ان کی جائیداد سے ان کے مرنے کے بعد محروم ہوجائیں گے،  یہ بے اصل  و باطل ہے ،لہٰذا ایسی  اولادجسے ان کے ماں یا باپ نے اپنی جائیداد سے عاق کردیا ، ان کے مرنے کے بعد ان کی میراث سے حصہ پائے گی کہ رب کائنات نے میراث میں اولاد کا حق اپنی سچی کتاب قرآنِ پاک میں بیان فرمایا ہے، جوساری دنیا خواہ والدین کے عاق کہنے یا لکھنے سے ختم نہیں ہوسکتا ۔ 

   نیز کسی شخص کے انتقال کر جانے سے اس کے کل مال کی مالک اس کی بیوہ  نہیں ہوجاتی، بلکہ بحکمِ قرآن اولاد ہونے کی صورت میں اپنے شوہر کے مال کے آٹھویں حصے کی مالک ہوتی ہے ، اورباقی مال کے مالک قرآن وسنت میں بیان کیے گئے دیگر ورثاء ہوتے ہیں ۔

   اولاد کی موجودگی میں بیوہ کے حصے کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُترجمہ کنزالایمان:’’ پھر اگر تمہارے اولاد ہو، تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔‘‘ (سورۃالنساء ،پارہ4 ،آیت 12)

   رب کائنات عزوجل اولادکے حصے کے متعلق فرماتا ہے:﴿ یُوصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ  لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں،   بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے۔(سورۃ النساء،پارہ4 ،آیت 11)

   وراثت سے محروم کرنے والی چیزیں چار ہیں،فتاوی عالمگیری  میں ہے:’’الرق يمنع الإرث،القاتل بغير حق لا يرث من المقتول،واختلاف الدين أيضا يمنع الإرث واختلاف الدارين يمنع الإرث، كذا في التبيين ولكن هذا الحكم في حق أهل الكفر لا في حق المسلمين،ملتقطا‘‘ترجمہ:غلام ہونا وراثت سے مانع ہے ،ناحق قتل کرنے والا مقتول کا وارث نہیں ہوگا،دِین کا مختلف ہونا بھی وارث ہونے سے مانع ہے ، اور وطن کا مختلف ہونا بھی وارث ہونے سے مانع ہے(یہاں وطن کے اختلاف سے دار الحرب اور دارالاسلام کا اختلاف مراد ہے)اسی طرح تبیین میں ہے ، لیکن یہ حکم (یعنی وطن کے مختلف ہونے سے وارث نہ بننا) کفار کے ساتھ خاص ہے مسلمانو ں کے لیے نہیں ۔(فتاوی عالمگیر ی،جلد6،صفحہ 454،مطبوعہ کوئٹہ)

   والدین کو ستانا ، ان کا دل دُکھانا کبیرہ گناہ ہے ،بخاری شریف میں ہے: ’’عن عبد الرحمن بن أبی بکرۃ عن أبیہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ألا أنبئکم بأکبر الکبائر قلنا بلی یا رسول اللہ قال الإشراک باللہ وعقوق الوالدین وکان متکأ فجلس فقال ألا وقول الزور وشھادۃ الزور ألا وقول الزور وشھادۃ الزور فما زال یقولھا حتی قلت لا یسکت‘‘ترجمہ:حضرت عبدالرحمٰن بن ابو بکرۃ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں جو سب سے بڑے گناہ ہیں، ان کے بارے میں خبر نہ دوں؟  ہم نے عرض کی کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے پس بیٹھ گئے اور فرمایا اور جھوٹی بات اور جھوٹی بات کی گواہی دیناخبردار اور جھوٹ بولنا  اور جھوٹی بات کی گواہی دینا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس کی تکرار کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سکوت نہ فرمائیں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب، ج8، ص4، دار طوق النجاۃ)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام  اہلسنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :” عاق عربی میں وہ اولاد کہ ماں یاباپ کوآزارپہنچائے ، ناحق ناراض کرے۔  اورجوشخص فی الواقع عاق ہو،تو اس کا اثر امورآخرت میں ہے کہ اگراﷲ عزوجل والدین کوراضی کرکے اس کاگناہ معاف نہ فرمائے ،تو اس کی سزا جہنم ہے، والعیاذباﷲ، مگرمیراث پراس سے کوئی اثرنہیں پڑتا، نہ والدین کالکھ دیناکہ ہماری اولاد میں فلاں شخص عاق ہے۔  ہماراترکہ اسے نہ پہنچے،  اصلاً وجہ محرومی ہوسکتاہے کہ اولاد کاحق میراث قرآن عظیم نے مقررفرمایاہے۔ وقال ﷲ تعالیٰ﴿ یُوصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ  لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (ترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں  بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے)۔

   والدین خواہ تمام جہان میں کسی کالکھا اﷲ عزوجل کے لکھے پرغالب نہیں آسکتا ، ولہٰذا تمام کتب فرائض وفقہ میں کسی نے اسے موانع اِرْث سے نہ گِنا۔‘‘ملتقطا۔ (فتاوی رضویہ، جلد26،صفحہ 181،180رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم