Jo Shakhs La Pata Ho Jaye Uski Wirasat Ka Hukum?

جو شخص لاپتہ ہوجائے ، اس کی وراثت کا حکم

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Har-4193

تاریخ اجراء:09صفر المظفر1442ھ/27ستمبر20 20ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عبد الرحمٰن آٹھ سال پہلے لا پتہ ہوگیا تھا،اس کی موت و حیات کا اب تک  کوئی پتہ نہیں چل سکا۔جس وقت لا پتہ ہوا تھا،اس وقت اس  کی عمر 75سال تھی۔پوچھنا یہ ہے کہ اس کے مال کے متعلق کیا حکم ہے؟کیا اس کا مال اس کے ورثاء میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسا مفقود(گم ہونے والا) شخص جس کی موت و حیات کا کوئی علم نہ ہو،وراثت وغیرہ معاملات میں اس کی موت کا حکم کب دیا جائے گا؟ اس کے متعلق چند اقوال ہیں۔

   (1) ظاہر الروایہ یہ ہے کہ عمر کے اعتبار سے اس کی کوئی مخصوص مقدار نہیں،بلکہ اس کے شہر میں اس کے اقران یعنی ہم عمر لوگوں کے فوت ہوجانے پر اس کی موت کا حکم دیا جائے گا۔

   (2) ایک قول یہ ہے کہ یہ معاملہ قاضی کے سپرد ہے،وہ چھان بین کے بعد جب اس کی موت کا فیصلہ کر دے گا، تب اس کی موت کا حکم ہوگا،امام زیلعی  علیہ الرحمۃنے اسے اختیار فرمایا۔ان دو کے علاوہ باقی اقوال میں عمر کی مقدار مقرر کی گئی ہے کہ مفقود کی وقتِ پیدائش سے  ٹوٹل عمر جب ان اقوال میں مقرر کی گئی عمر کو پہنچ جائے گی، تو پھر قاضی اس کی موت کا حکم دے گا۔

   (3) ان میں سے ایک قول میں ساٹھ سال عمر مقرر کی گئی ہے۔

   (4) دوسرے میں ستر سال۔

   (5) تیسرے میں اَسّی سال۔

   (6) چوتھے میں نوے سال۔

   (7)پانچویں میں سو سال ۔

   (8) اور چھٹے میں ایک سو بیس سال عمر مقرر کی گئی ہے ۔

   محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام علیہ الرحمۃ نےاس حدیث’’میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں‘‘  کی بناء پر ستر سال والے قول کو اختیار فرمایا اور فقہاء نےاسے لوگوں کے لیے ارفق(آسان) اور زمانے کے زیادہ موافق ہونے کی وجہ سے مفتی ٰبہ قرار دیا ،لہٰذا  مفقود شخص کے متعلق یہی حکم بیان کیا جائے گا کہ گم ہونے کے بعد جب اس کی ٹوٹل  عمر ستر سال تک پہنچے گی،تب قاضی اس کی موت کا حکم کردے گا اور وراثت وغیرہ احکام، جو اب تک  موقوف تھے ، ان کے متعلق فیصلہ کر دیا جائے گا۔

   اس مفتیٰ بہ قول کے مطابق ستر سال کی عمر سے پہلے مفقود ہونے والے شخص کا حکم  تو واضح ہے،لیکن جو شخص ستر سال کی عمر کے بعدمفقود ہو،جیسا کہ صورت مستفسرہ میں یہی معاملہ ہے کہ مفقود ہونے والا شخص 75 سال کی عمر میں گم ہوا، تو  اس کے متعلق کیا حکم ہوگا؟کیا قاضی فوراً موت کا حکم کر دے گا؟تو سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے مفقود شخص کے متعلق دوسرا قول  جو کہ امام زیلعی علیہ الرحمۃ کا مختار ہے،اس کے مطابق حکم بیان کرنےکا فرمایایعنی یہ معاملہ قاضی کے سپرد کیا جائے گا اورقاضی اس کی جگہ،زمانہ،ہم عمر لوگوں کے متعلق چھان بین کرنے اور خوب غور و فکر کرنے کے بعد جب اس کی موت کا فیصلہ کر دے گا،تب وراثت وغیرہ احکام جاری ہوں گے،لہذا صورت مستفسرہ میں عبد الرحمٰن کا مال فوراً تقسیم نہیں ہوگا،بلکہ یہ معاملہ قاضی کے پاس پیش کیا جائے گا اور آج کل چونکہ قاضی نہیں ہوتے ،لہٰذا اعلم علمائے بلد یعنی شہر کےسب سے بڑے سنی مفتی کے پاس پیش کیا جائے گا اور  مفتی، عبد الرحمٰن کے شہر کے لوگوں کی عمومی عمروں اور عبد الرحمٰن کے ہم عمر لوگوں کے متعلق چھان بین کرے گا کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں،چھان بین کے بعد جب اسے ظن غالب ہو جائے گا  کہ اب تک عبد الرحمٰن زندہ نہیں ہوگا،تو وہ اس کی موت کا حکم کر دے گا ،اس کے بعد عبد الرحمٰن کا مال اس کے ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔

   مفقود کے متعلق جزئیات:

   درر الحکام میں ہے:’’ولا يستحق ما أوصى له به إذا مات الموصي بل يوقف قسطه من مال مورثه وموصيه إلى موت أقرانه في بلده ،اختلف في تقدير مدة حياته وظاهر الرواية ما ذكر هنا فإن ما تقع الحاجة إلى معرفته فطريقه في الشرع الرجوع إلى مثاله كقيم المتلفات ومهر مثل النساء، وبقاؤه بعد كل أقرانه نادر وبناء الأحكام الشرعية على الظاهر الغالب واعتبر أقرانه في بلده؛ لأن التفحص عن حال الأقران في كل البلدان خارج عن الإمكان وقال الزيلعي المختار أن يفوض إلى رأي الإمام ‘‘اور وہ مستحق نہیں ہوگا جس کی اس کے لیے وصیت کی گئی ہے جب موصی مر جائے ،بلکہ  اس کے مورث اور موصی کے مال میں سے اس کے حصے کو اس کے شہر کے ہم عمر دوستوں کی موت تک روکا جائے گا۔اس کی حیات کی مدت مقرر کرنے میں اختلاف ہےاور ظاہر الروایہ وہی ہے جو ہم نے ابھی ذکر کی، کیونکہ جن چیزوں کی پہچان کی ضرورت پڑتی ہے، تو شرعاً اس  کا طریقہ اس کی امثال کی طرف رجوع کرنا ہے،جیساکہ تلف شدہ چیزوں کی قیمت اور عورتوں کا مہر مثل اور ایسے آدمی کا اپنے ہم عمر آدمیوں کی موت کے بعد زندہ رہنا بھی نادر ہے اور احکام شرعیہ کی بنیاد ظاہر و غالب صورت پر ہوتی ہے اور اس کا اپنے  شہر میں ہم عمر دوستوں کا اعتبار اس لیے کیا جارہا ہے،کیونکہ تمام تر شہروں میں اس کے ہم عمر دوستوں کے حال کی چھان بین کرنا خارج عن الامکان ہے۔اور امام زیلعی نے فرمایا کہ مختار یہ ہے کہ اس کو قاضی کی رائے کی طرف سپرد کیا جائے گا۔(درر الحکام شرح غرر الحکام ،ج2،ص128،مطبوعہ دار إحياء الكتب العربية)

   تنویرالابصارودرمختار میں ہے:’’(ولا یستحق ما اوصی لہ اذا مات الموصی بل یوقف قسطہ الی موت اقرانہ فی بلدہ علی المذھب) لانہ الغالب ،واختار الزیلعی تفویضہ للامام ‘‘اور وہ مستحق نہیں ہوگا جس کی اس کے لئے وصیت کی گئی ہے جب موصی مر جائے ،بلکہ اس کے حصے کو اس کے شہر میں اس کے ہم عمر دوستوں کی موت تک روکا جائے گا، مذہب کے مطابق، کیونکہ وہ غالب ہے ،اور امام زیلعی نے اس کو قاضی کے سپرد کرنے کو اختیار کیا  ہے۔(تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار،ج6،ص454،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے:’’قولہ:(الی موت اقرانہ)ھذا لیس خاصاً بالوصیۃ بل ھو حکمہ العام فی جمیع احکامہ من قسمۃ میراثہ و بینونۃ زوجتہ و غیر ذلک‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول:(اس کے ہم عمردوستوں کی موت تک)یہ صرف وصیت کے ساتھ خاص نہیں ہے،بلکہ یہ اس کا ایسا حکم ہے جو اس کی میراث کی تقسیم اوراس کی بیوی کے بائنہ وغیرہ اس کے تمام احکام میں عام ہے۔(رد المحتار مع الدرالمختار،ج6،ص453،مطبوعہ کوئٹہ)

   مفقود کے متعلق عمر کی مقدار مقرر ہونے کے متعلق دیگر اقوال اور مفتیٰ بہ قول کی تعیین:

   نہر الفائق میں ہے:’’اعلم أن ظاهر الرواية عن الإمام أنه لا يحكم بموته إلا بموت أقرانه في السن من أهل بلده وقيل: من جميع البلدان، قال خواهر زاده: والأول أصح، قال السرخسي: وهذا أليق بالفقه لأن نصب المقادير بالرأي لا يجوز غير أن الغالب أن الإنسان لا يعيش بعد أقرانه وأنت خبير بأن التفحص عن موت الأقران غير ممكن أو فيه حرج فعن هذا اختار المشائخ تقديره بالسن ثم اختلفوا فاختار المصنف أنه تسعون وفي (الهداية)وهوالأرفق.قال في (الكافي): و(الوجيز) وعليه الفتوى وروى الحسن مائة وعشرين سنة، وعن أبي يوسف مائة وفي (التتارخانية) معزيا إلى (الحاوي) وبه نأخذ وفيها عن (التهذيب) الفتوى على تقديره بثمانين واختار المتأخرون تقديره بستين وهذا الاختلاف إنما نشأ من اختلاف الرأي في أن الغالب هذا أو مطلقا، قال في (الفتح): والأحسن عندي التقدير بسبعين لخبر (أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين) وقيل: يفوض إلى رأي القاضي فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته، قال الشارح: وهو المختار‘‘ تو جان بے شک امام صاحب سے ظاہر الروایہ میں یہ مروی ہے کہ اس  کی موت کا حکم اس  کےشہر  کے ہم عمر دوستوں  کے اعتبار سے لگایا  جائے گا اور کہا گیا ہے تمام شہر والوں کے اعتبار سے، خواہر زادہ نے فرمایا : اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے ، امام سرخسی نے فرمایا  : اور یہ فقہ کے زیادہ لائق ہے ،کیونکہ رائے کے ذریعے مقادیر معین کرنا ،جائز نہیں ، علاوہ ازیں   بے شک اکثر طور پر انسان اپنے ہم عمر دوستوں کی  موت کے بعد زندہ نہیں رہتااور تو جانتا ہے کہ  ہم عمر دوستوں کی چھان بین ناممکن ہےیا اس میں حرج ہے، پس امام صاحب سے مروی ہے:مشائخ نے اس کے ہم عمر دوستوں کی عمر کو مقرر کیا،  پھر فقہائے کرام نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ،پس مصنف علیہ الرحمۃ نے اس بات کو اختیار فرمایا کہ جب وہ نوے سال کا ہوجائے  اور ہدایہ میں ہے، یہی زیادہ مناسب ہے ۔ کافی میں فرمایا : اور( وجیز میں ہے) اسی پر فتویٰ ہےاور امام حسن سے ایک سو بیس سال مروی ہے اور امام ابو یوسف سے سو سال مروی ہےاور تتارخانیہ میں حاوی کی طرف منسوب کرتے ہوئے ہے  اور اسی کو ہم نے لیا اور اسی  میں تہذیب کے حوالے سے    ہے کہ فتویٰ اسی سال کی مقدار  پر ہے اور متاخرین نے ساٹھ سال کی مقدار اختیار کی  اوریہ اختلاف رائے کے  اختلاف سے پیدا ہوااس بارے میں کہ یہ غالب یا مطلقاً ہے، فتح میں فرمایا:اور میر ےنزدیک زیادہ بہتر ستر سال ہے حدیث پاک کی وجہ سےکہ’’ میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہیں۔‘‘اور کہا گیا ہے کہ اس کو قاضی کی رائے کی طرف پھیرا جائے گا، پس  جس وقت وہ کوئی مصلحت دیکھے  اس کی موت کا حکم لگا دے  ، شارح نے فرمایا: یہی مختار ہے۔(نھر الفائق ،ج3،ص292،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   ردالمحتار میں ہے:’’وقیل یقدر بتسعین سنۃمن حین ولادتہ ،واختارہ فی الکنز وقیل بمائۃ ،وقیل بمائۃ وعشرین ،واختار ابن الھمام سبعین لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:اعمار امتی ما بین الستین الی السبعین ‘‘ فکانت المنتھی غالبا ،ملخصا‘‘ اور کہا گیا ہے وہ اس کی ولادت سے نوے سال کی عمر  تک مقرر کیا جائے گا،اس کو کنز میں اختیار کیا ہے اور کہا گیا سو سال تک ،اورکہا گیا کہ ایک سو بیس سال تک اور امام ابن ہمام نے ستر سال کو اختیار کیا ہے ،نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے:میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہیں۔پس زندگی کی انتہا عموماً اسی پر ہوجاتی ہے۔(رد المحتار علی الدرالمختار،ج6،ص454،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ستر سال والے قول کی ترجیح کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’ھذا احسن مایصار الیہ و یعول علیہ فانہ المویَّد بالحدیث،و شاھد حال الزمان للحدیث،ان المرمٰی ھٰھنا ھو حصول الظن لیس الا فانہ لاسبیل الی الیقین،فتقدیرُ رسولِ اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم خیر من تقدیر غیرہ،و قد نص العلماء کشارحَیِ المُنیۃ العلامۃ المحقق محمد بن امیرالحاج فی الحلیۃ و العلامۃ ابراھیم الحلبی فی الغنیۃ و غیرُھما فی غیرِھما انہ لایعدل عن درایۃ ما وافقتھا روایۃ، لاسیما و ھو الارفق بالناس و الْاَوفق بالزمان،فقد تقاصرت الاعمار و تعجلت المنون،و حسبنا اللہ و نعم الوکیل،فلذا عولنا علیہ فی جمیع فتاوٰنا و باللہ التوفیق، اخرج الترمذی عن ابی ھریرۃ و ابویعلٰی عن انس بن مالک رضی اللہ عنھما قالا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اعمارُ امّتی ما بین الستّین الی السبعین و اقلھم من یجوز ذٰلکسندُہ حسن کما نص علیہ الحافظ فی فتح الباری‘‘اور یہ بہترین قول ہے،جس کی طرف رجوع کیاجائے اور اس پربھروسہ کیاجائے،کیونکہ حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے اور حال زمانہ حدیث کا شاہد ہے، کیونکہ یہاں مقصود ظن غالب کا حصول ہے،یہاں یقین کی کوئی صورت نہیں۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کا مقرر کیا ہوا  اندازہ غیرکے اندازے سے بہترہے،اورعلماء نے نص فرمائی ہے جیسا کہ منیہ کے دوشارحین علامہ محقق محمد بن امیرالحاج نے حِلیہ میں اور علامہ ابراہیم حلبی نے غنیہ میں،اور ان دونوں کے علاوہ دیگرعلماء نے دیگر کتابوں میں تصریح فرمائی کہ دِرایت جب روایت کے موافق ہو،تو اس سے عدول نہیں کیا جائے گا خصوصاً جبکہ اس میں لوگوں کے لیے زیادہ نرمی اور زمانے کے ساتھ زیادہ موافقت موجود ہو،تحقیق عمریں کم ہوگئیں اور موتیں جلدی واقع ہونے لگیں۔اللہ پاک ہمیں کافی ہے اور کیاہی اچھا کارسازہے۔اسی لیے ہم نے اللہ پاک کی دی ہوئی توفیق سے  اپنے تمام فتاویٰ میں اس پراعتماد کیا ہے۔ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  اور ابو یعلٰی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تخریج کی،ان دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا:میری امت کی عمریں ساٹھ اور سترسال کے درمیان ہوں گی بہت کم ان میں سے ایسے ہوں گے جو اس سے آگے بڑھیں۔اس کی سند حسن ہے، جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے اس پرنص کی ہے۔(فتاوٰی رضویہ،ج26،ص99تا100،مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے:’’مفقود اور اس کی زوجہ میں تفریق اس وقت کی جائے گی کہ جب ظن غالب ہوجائے کہ وہ مرگیا ہوگا اور اس کی مقدار یہ ہے کہ اس کی عمر سے  ستر برس  گزر جائیں، اب قاضی اس کی موت کا حکم دے گا اور عورت عدت وفات گزار کر نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے اور جو کچھ املاک ہیں،ان لوگوں پر تقسیم ہوں گے جو اس وقت موجود ہوں۔‘‘(بھارشریعت،ج2،ص486،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ستر سال  کی عمر کے بعد مفقود ہونے والے کا حکم:

   جوشخص ستر سال کی عمر کے بعد مفقود ہوا،تو فوراً اس  کی موت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کے معاملے کو قاضی کے سپرد کرنا واجب ہے،جیساکہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’قولہ (واختار الزیلعی تفویضہ للامام، فای وقت رای المصلحۃ حکم بموتہ،ملخصا) اقول:ھذا من الحسن بمکان ولا محید من الرجوع الیہ اذا فقد مثلا وقد خرج عن التقادیر ولم یبق فی البلد من اقرانہ احد ،فانہ لا یمکن ان یحکم بموتہ من فور فقدہ بل یجب التفویض الی رای القاضی ،فافھم‘‘مصنف علیہ الرحمۃ کا قول :(اور امام زیلعی نے اس کے معاملے کو قاضی کے سپرد کرنے کو اختیار فرمایا کہ جب وہ مصلحت جانے اس کی موت کا حکم کر دے)میں کہتا ہوں :یہ اچھا قول ہےاور اس کی طرف رجوع کیے بغیر کوئی ہٹنے کی راہ  نہیں ہے،جب مثال کے طور پر کوئی شخص  گم ہوجائے اور مقرر  کی گئی مقادیر سے تجاوز کرچکا ہو اور شہر میں اس کے ہم عمر لوگوں میں سے بھی کوئی باقی نہ ہو ،تو اس کے گم ہوتے ہی فوراً اس کی موت کا حکم کرنا، تو ممکن نہیں، بلکہ قاضی کی رائے کی طرف سپرد کرنا واجب ہے۔پس سمجھو۔(جد الممتار ،ج 05،ص 423 تا424،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   ستر سال کی عمر میں مفقود ہونے والی عورت کے متعلق کیے جانےوالےسوال پر صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃجواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’جو شخص ایسا غائب ہو کہ اس کا پتہ نہ چلے اسے مفقود کہتے ہیں  اور اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا مال اس وقت تک محفوظ رکھا جائے جب تک اس کی موت معلوم نہ ہو،یا یہ کہ قاضی اس کی موت کا حکم دے دے اور قاضی کب موت کا حکم دے گا ،اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں،مگر امام ابنِ ہُمام نے جس قول کو اختیار فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی عمر ستر سال کی ہوجائے اور چونکہ مسماۃ مذکورہ کی عمر تقریباً ستر سال کی  ہے لہٰذا، اگر ثابت ہو کہ ستر سال کی عمر ہوچکی ہے ،تو حکمِ موت دیا جاسکتا ہے،مگر یہ کام قاضی کا ہے اور یہاں ہندوستان میں قاضی نہیں،یہ کام شہر میں سب سے بڑا عالم کرسکتا ہے کہ وہ ایسی صورت میں قاضی کے قائم مقام ہوسکتا ہے،اس کے پاس معاملہ کو پیش کیا جائے،اگر وہ موت کا حکم دے دے، تو جو کچھ مسماۃ کا مال ہے، وہ دونوں وارثوں میں حسبِ شرائطِ فرائض برابر ، برابر تقسیم کردیا جاوے۔ملخصا‘‘(فتاوٰی امجدیہ،ج3،ص381۔382،مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

   مفقود کا حکم لگانے کے لیے کن چیزوں کا لحاظ ضروری ہے:

   اوپریہ تو واضح ہو چکا کہ جو شخص ستر سال عمر ہوجانے کے بعد مفقود ہوا، تو اس کے بارے میں  امام زیلعی علیہ الرحمۃ کے مختار قول کے مطابق حکم بیان کیا جائے گا،لیکن اس قول کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے قاضی کو  کن چیزوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اس کو بیان کرتے ہوئے رد المحتار میں شرح وہبانیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:’’ینظر ویجتھد ویفعل ما یغلب علی ظنہ فلا یقول بالتقدیر وینظر فی الاقران وفی الزمان والمکان ویجتھدلانہ یختلف باختلاف البلاد و کذا غلبۃ الظن تختلف باختلاف الاشخاص۔۔۔اھ ومقتضاہ :انہ یجتھد ویحکم القرائن الظاھرۃ الدالۃ علی موتہ۔ملخصا‘‘قاضی غوروفکر کرے اورکوشش کرےاوراپنے غالب گمان کے مطابق حکم کرےاورمفقود کے ہم عمر لوگوں اور زمان اور مکان میں غور و فکر کرےاور کوشش کرے ،کیونکہ یہ شہروں کے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتا ہے اور اسی طرح غلبہ ظن اشخاص کے مختلف ہونے سے مختلف ہوجا تا ہے۔۔۔۔اور اس کا مقتضی یہ ہے کہ وہ کوشش کرے اور اس کی موت پر دلالت کرنے والے ظاہر قرائن کے مطابق فیصلہ کرے۔(رد المحتار علی الدرالمختار ،ج 06،ص454،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم