Kya Maa Baap Aik Bete Ko Ziyada Maal De Sakte Hain ?

ماں باپ کاایک بیٹے کومال زیادہ دینا کیسا ہے ؟

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی نمبر: WAT-1009

تاریخ اجراء:       25محرم الحرام1444 ھ/24اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ماں باپ اگر اپنے دو بیٹوں میں سے ایک کو زیادہ زیادہ دیں اور یوں کہیں کہ اس بیٹے نے ہمیں زیادہ رکھا ہے ، تو کیا یہ جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگرایک بیٹے کواس لیے زیادہ دے رہے ہیں کہ اس نے زیادہ خدمت کی ،ہمیں اپنے پاس رکھا،لیکن دوسرے بیٹے کومحروم کرنے کی نیت نہیں ہے توخدمتگاربیٹے کوزیادہ دینے میں حرج نہیں ۔

   زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ دینے کے مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ زندگی میں ہر شخص اپنے مال میں تصرف کرنے کا خود مختار ہوتا ہے اور اس کی زندگی میں کسی دوسرے  کا اس کے مال کے ساتھ حق متعلق نہیں ہوتا ۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے ورثاء میں اپنا مال اپنی زندگی میں ہی تقسیم کرنا چاہے ، تو کر سکتا ہے ، جس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ، برابر حصہ دیں اور اگرمستقبل میں ان افراد کے وارث بننے کے بعد ملنے والے حصے کے اعتبار سے بیٹے کو بیٹی سے دُگنا دیں ، تو یہ بھی جائز ہے ۔ نیز اگر اولاد میں سے کسی میں دینی فضیلت پائی جائے مثلاً کوئی دین کا طالبِ علم یا زیادہ خدمت گار یا زیادہ نیک ہے ، تو اسے زیادہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ البتہ بلا عذرِ شرعی کسی وارث کو محروم کر کے دوسرے کو سارا مال دے دینا ، جائز نہیں کہ اس طرح اگرچہ وہ مالک تو ہوجائے گا ، لیکن ایسا کرنا ، ناجائز وگناہ ہے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم