kiya makan kisi ke naam kharidne se hiba mukammal ho jata hai ?

کیا مکان کسی کے نام کردینے سے ہبہ مکمل ہو جاتاہے؟

مجیب:مولانا نورالمصطفی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar:6387

تاریخ اجراء:16جمادی الثانی 1438ھ/16 مارچ 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مرحوم دین محمد نے اپنی صحت و حیات میں اپنا ایک قابل تقسیم مکان اپنےدو بیٹوں کے نام کر دیا تھا۔ مگر اس کی اوپر والے حصے کی عارضی سی تقسیم ہوئی تھی، جو باقاعدہ تقسیم نہیں تھی اور وہ خود بھی وہیں رہتے رہے تھے۔ ان کا ایک تیسرا بیٹا بھی تھا جو پہلے گھر سے کہیں چلا گیا تھا۔ مگر اب ان کے فوت ہونے کے کافی  عرصہ بعد وہ بھی واپس آ گیا ہوا ہے۔ اب اس کے بارے میں وضاحت سے شرعی حکم بیان فرمائیے کہ اس مکان میں اس تیسرے بیٹے کا کوئی حصہ ہو گا یا نہیں، جبکہ قانونی طور پر وہ مکان دو بیٹوں ہی کی ملکیت ہے۔

سائل: عبدالرشید عطاری (شاہدرہ،  مرکز الاولیا لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مرحوم دین محمد کا وہ مکان قانونی طور پر دو بیٹوں کے نام لگوانا شرعی طور پر ہبہ (Gift) تھا، اور شریعت کا اصول یہ ہے کہ اگر قابل تقسیم چیز ہبہ کی تو جب تک باقاعدہ (Proper) تقسیم ہو کر اور ہبہ کرنے والے کا تصرف ختم ہو کر مکمل طور پرجسے ہبہ کیا اس کا قبضہ نہ ہو جائے ہبہ تام (یعنی مکمل) نہیں ہوتا، اور ہبہ تام ہونے سے پہلے ہبہ کرنے والے یا جسے ہبہ کیا گیا ان میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو وہ ہبہ باطل ہو جاتا ہے۔ لہذا بیان کی گئی صورت میں جب وہ مکان قابل تقسیم تھا اور اس کی باقاعدہ تقسیم نہیں ہوئی تھی اورہبہ کرنے والے مرحوم دین محمد خود بھی وہیں رہتے رہے اور اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا تو ہبہ تام ہونے سے پہلے ہی باطل ہو گیا۔ لہذا وہ مکان مرحوم کے فوت ہونے کے بعد ان کے ورثا میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا، جس میں اس تیسرے بیٹے کا حصہ بھی لازمی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم