Walid Ki Zindagi Mein Faut Hone Wale Bete Ka Walid Ki Wirasat Mein Hissa

والد کی زندگی میں فوت ہونے والے بیٹے کا والد کی وراثت میں حصہ

مجیب: سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-836

تاریخ اجراء: 17    شوال المکرم1444 ھ  /08 مئی2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی بیٹا اپنے والد کی زندگی میں ہی فوت ہوجائے ،تو کیا اسےیا اس کی اولاد کو اس کے  والد کی وراثت سے حصہ ملے گا جبکہ والد کے دوسرے بیٹے بھی  موجود ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کے وارث وہ لوگ ہوتے ہیں، جو اس کی موت کے وقت زندہ ہوں ،لہٰذا اگر کوئی بیٹا اپنے والد کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا، تو والد کی وفات کے بعد والد کی وراثت میں اس فوت ہوجانے والے بیٹے کا کوئی حصہ نہیں ہوگا  ،جب اس فوت ہونے والے بیٹے کا کوئی حصہ نہیں ،تواس کے والد کے دیگر بیٹوں کی موجودگی میں فوت شدہ بیٹے  کی اولاد کا بھی  دادا کی جائیداد میں بطورِ وراثت کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

   ہاں اگر بالغ ورثاء اپنے حصوں میں سے اپنی رضامندی سے اس  کی اولاد کو کچھ دیں، تو ثواب پائیں گے۔

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ترکہ ملنے  کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ووجود وارثہ عند موتہ حیا حقیقۃ“یعنی مورث کی وفات کے وقت وارث کا حقیقۃً زندہ موجود ہونا(بھی وراثت کے ثبوت کی ایک شرط ہے) (رد المحتار ، جلد 10 ،صفحہ 525 ،  بیروت)

   جو بیٹا، بیٹی والد کی زندگی  میں انتقال کرجائے ،اس کا باپ کے ترکہ میں کوئی حق نہیں ہوتا۔اس کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لا حق لابن مات قبل ابیہ فی ترکۃ ابیہ“یعنی جو بیٹا اپنے والد سے پہلے انتقال کر گیا،اس کا اپنے والد کے ترکہ میں کوئی حق نہیں۔(فتاوی رضویہ ، جلد 25 ، صفحہ 383، رضا فاؤندیشن، لاھور)

   جو وارث محروم ہوجائیں ،انہیں بھی میراث میں سے کچھ دے دینا بہتر ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:” وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنُ فَارْزُقُوۡہُمۡ مِّنْہُ وَقُوۡلُوۡا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوۡفًا “ترجمۂ                                               کنز الایمان :پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں ،تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو۔ (القرآن الکریم ، سورۂ نساء، آیت 8)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں:”جو رشتہ دار میراث سے محروم ہوگئے ہوں ، انہیں بھی میراث سے کچھ دے دینا علی الحساب بہتر ہے۔“(تفسیر نعیمی ، جلد4،صفحہ 493، مکتبہ اسلامیہ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم