Wirasat Me Hissa Kis Hisab Se Hoga ?

وراثت میں حصہ شریعت کے حساب سے ہوگا یا مورِث کی وصیت کے حساب سے

مجیب: ابو الحسن جمیل احمد غوری العطاری

فتوی نمبر: Web-356

تاریخ اجراء:       04ذوالحجۃالحرام1443 ھ/04جولائی2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہم دو بھائی اور دو بہنیں ہیں والد صاحب نے وصیت کی تھی  کہ جائیداد میں ہم دونوں بھائیوں اور دونوں بہنوں کا حصہ برابر ہوگا، والد صاحب کےانتقال کے بعد بھائی کہتے ہیں کہ حصہ شریعت کے حساب سے ہوگا ،جبکہ بہنوں کا کہنا کہ حصہ وصیت کے مطابق ہی ہوگا، اس صورت میں ہمارے لئے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وراثت میں شریعت کی طرف سے میت کےبیٹے بیٹیوں کا ایک مخصوص حصہ مقرر ہے اوروارث کے لئے وصیت باطل ہے۔لہذا میت کا اس طرح  وصیت  کرنا کہ  وراثت میں بیٹے بیٹیوں کا برابرحصہ ہوگا، یہ وصیت شرعاً درست نہیں ،  بلکہ  شریعت کے مطابق بیٹے کو بیٹی سے دوگنا ( ڈبل) حصہ ملے گا۔

   اولاد کےحصے کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے:’’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ‘‘ ترجمۂ کنزالایمان:بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابرہے۔(پارہ: 4،سورۃالنساء،آیت11)

   سنن ِابن ماجہ شریف میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ  وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے ورثاء میں سے ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ا س کا شرعی حصہ مقرر فرمادیا ہے) تو اب کسی وارث کے لئے وصیت نہیں ہوسکتی۔(سنن ابن ماجہ شریف،صفحہ195 ،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم