Wirasat Mein Se Koi Waris Apna Hissa Chorna Chahe, To Kya Chor Sakta Hai?

وراثت میں کوئی وارث اپنا حصہ چھوڑنا چاہے ،تو کیا چھوڑ سکتا ہے ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Fmd-2865

تاریخ اجراء:07شعبان المعظم 1443ھ/11مارچ 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ  اگر کوئی وارث وراثت میں سے اپنا حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دے ،تو کیا اس کا حصہ ساقط ہو جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وراثت اللہ عزوجل کی طرف سے مقرر کردہ جبری و لازمی حق ہے۔وارث،مُورِث کے فوت ہوتے ہی اس حق  وحصۂ  شرعی کا مالک ہو جاتا ہے اور یہ ملکیت معاف کرنے سے ساقط نہیں ہو سکتی، اگرچہ وارث(جیسے بیٹی یا بیٹا وغیرہ)اپنی خوشی سے معاف کر دےیا کہہ دے کہ مجھے وراثت میں سے اپنا حصہ نہیں چاہیے،اس کی یہ بات قبول نہیں کی جائے گی اور اسے اس کا حصہ لازماً دلایا جائے گا۔

   البتہ شرعی طریقہ کار کے مطابق وراثت کی تقسیم کرنے اور اپنے حصہ پر قبضہ کر لینے کے بعد  اگر کوئی وارث اپنا حصہ کسی کو ہبہ (گفٹ) کرنا چاہے، تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ واہب(یعنی تحفہ دینے والا) موہوب (یعنی تحفۃً دی گئی) چیز پر موہوب لہُ (یعنی جسے تحفۃً دی گئی ہے، اس)کو کامل قبضہ دلا دے ،کیونکہ کامل قبضے کے بغیر ہبہ مکمل نہیں ہوتا،لہٰذا جس جس کو جتنا مال ہبہ کرنا چاہے،اس کی تعیین و تقسیم کر کے موہوب لہ کو کامل قبضہ دلا دے، تو ہبہ درست ہو جائے گا۔ہاں جو چیز قابلِ تقسیم نہ ہو، اس کا ہبہ تقسیم کے بغیر بھی جائز ہے۔

   ترکہ تقسیم کرنے کے بعد اپنا حصہ ہبہ کرنے کے علاوہ ایک آسان صورت صلح وتخارج کی بھی ہے۔

   وہ یہ کہ وارث تقسیمِ ترکہ سے پہلے اَموالِ ترکہ میں سے کوئی معین چیز لے کر اس کے عوض اپنے حق سے دستبردار ہو جائے، خواہ وہ چیز مالیت میں اس کے حصۂ وراثت کے برابر ہو یا کم ہو یا زیادہ ہو اور تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور سب ہی اس پر متفق بھی ہوں۔اس طریقے سے بھی کوئی وارث معین چیز لے کر وراثت سے دستبردار ہوسکتا ہے۔اس کے بعد ترکہ باقی تمام ورثاء کے مابین ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔

   حقِ وراثت معاف کرنے سے معاف نہیں ہوتا،چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے:” لو قال الوارث تركت حقی لم يبطل حقه اذ الملك لا يبطل بالترک‘‘ یعنی اگر وارث نے کہا کہ میں نے اپنا حق چھوڑ دیا، تو اس کا حق باطل نہیں ہوگا ،کیونکہ ملکیت چھوڑ دینے سے باطل نہیں ہوتی۔‘‘(الاشباہ والنظائر ، الفن الثالث ، ج1،ص309، کراچی)

   اس کے تحت غمزعیون البصائر میں ہے:”اعلم أن الاعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه ان كان ملكاً لازماً لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما:تركت نصيبی من الميراث،لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك“جان لو کہ ملکیت یا حق ِ ملکیت سے اعراض کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر وہ لازم ملکیت ہو، تو اعراض کرنے سے وہ باطل نہیں ہو گی، جیسے اگر کوئی شخص دو بیٹے چھوڑ کر فوت ہو، تو ان دونوں بیٹوں میں سے ایک کہے:میں نے میراث میں سے اپنا حصہ چھوڑ دیا ، تو اس کا حصہ باطل نہیں ہوگا، کیونکہ وہ ایسا لازم حق ہے جو چھوڑ دینے سے ترک نہیں ہوتا۔(غمز عیون البصائر، ج2،ص388،389،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”میراث حقِ مقرر فرمودہ ِرب العزۃ جل وعلا ہے ، جو خود لینے والے کے اسقاط سے ساقط نہیں ہوسکتا، بلکہ جبراً دلایا جائے گا، اگرچہ وہ لاکھ کہتا رہے مجھے اپنی وراثت  منظور نہیں، میں حصہ کا مالک نہیں بنتا، میں نے اپنا حق ساقط کیا ، پھردوسرا کیوں کر ساقط کرسکتا ہے؟“(فتاوی رضویہ،ج18،ص168،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   ہبہ کامل قبضے سے مکمل ہوتا ہے،چنانچہ تنویر الابصار و در مختارمیں ہے:’’( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل‘‘یعنی ہبہ کامل قبضے سے مکمل ہوتا ہے۔ (تنویر الابصار و الدر المختار ،ج8،ص573،کوئٹہ)

   امام علاء الدین ابو بکر الکاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ لا تجوز ھبۃ المشاع فیما یقسم وتجوز فیما لا یقسم‘‘یعنی مشاع قابلِ تقسیم چیز کا ہبہ (تقسیم سے قبل) جائز نہیں اور وہ چیز جسے تقسیم نہ کیا جا سکتا ہو (یعنی تقسیم کے بعد قابلِ انتفاع نہ رہے )ایسی چیز کا ہبہ تقسیم کے بغیر بھی جائز ہے ۔‘‘(بدائع الصنائع،ج8،ص96، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ قابلِ تقسیم چیز کے ہبہ کے بارے میں فرماتے ہیں:’’شے مشترکہ صالح تقسیم کا ہبہ قبل تقسیم ہر گز صحیح نہیں اور اگر یوں ہی مشاعاً یعنی بے تقسیم موہوب لہ کو قبضہ بھی دے دیا جائے ،تاہم وہ شے بدستور ملک واہب پر رہتی ہے، موہوب لہ کا اصلاً کوئی استحقاق اس میں ثابت نہیں ہوتا، نہ وہ ہر گز بذریعہ ہبہ اس کا مالک ہوسکے جب تک واہب تقسیم کرکے خاص جزء موہوب معین محدود وممتاز جداگانہ پر قبضہ کاملہ نہ دے۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج19،ص207، رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

   وراثت سے اپنے حصہ سے دستبرداری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”حقِ میراث،حکمِ شرع ہے کہ رب العالمین تبارک وتعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے،کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوسکتا۔قال علمائنا کما فی الاشباہ وغیرہ:”الارث جبری لا یسقط بالاسقاط“ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ بیٹا مثلاً: اپنے باپ کا اس لیے وارث ہوتا ہے کہ یہ اس کا بیٹا ہے، تو جس طرح یہ اپنے بیٹے ہونے کو نہیں مٹاسکتا ،یونہی اپنے حقِ میراث کو نہیں ساقط کرسکتا۔پس امداد حسن خان (سیدی اعلیٰ حضرت سے کیے گئے سوال میں مذکور اپنے حقِ وراثت سے دستبردار ہونے والا وارث)کا ترکۂ متوفیٰ سے دستبردار ہونا ہرگز معتبر نہیں اور وہ اس وجہ سے زنہار کالعدم(ہرگز معدوم) نہیں ہوسکتا، اگر چہ لاکھ بار دستبرداری کرلے،شرع تسلیم (قبول)نہ فرمائے گی اور اسے اس کے حصہ کا مالک ٹھہرائے گی ،ہاں اگر اسے لینا منظور نہیں، تو یوں کرے کہ لے کر اپنی بہن خواہ بھاوج خواہ جسے چاہے ہبہ کامل کردے اور جو مال قابلِ تقسیم ہو اسے منقسم کرکے قبضہ دلادے اس وقت البتہ اس کا حق منتقل ہوجائے گا ،ورنہ مجرد دستبرداری کچھ بکار آمد(کسی کام کی) نہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ ،ج26،ص133 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   تخارج سے متعلق بہارِشریعت میں ہے:”اس (تخارج)سے مرادیہ ہے کہ وارثوں میں کوئی یاقرض خواہوں میں سے کوئی تقسیم ترکہ سے پہلے میت کے مال میں سے کسی معین چیزکولیناچاہے اوراس کے عوض اپنے حق سے دستبردارہوجائے، خواہ وہ حق  اس چیزسے زائدہویاکم اوراس پرتمام ورثہ یاقرض خواہ متفق ہوجائیں ،تواس کانام فقہ کی اصطلاح میں’’تخارج‘‘ یا ’’تصالح‘‘ہے۔“(بھار شریعت،ج3،ص1151،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم