پولٹری فارم کی مرغیوں پر زکوٰۃ کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Gul-2050

تاریخ اجراء:27 ربیع الاول1442ھ/14نومبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارےمیں کہ

     (1)بعض لوگ اس نیت سے مرغیاں خریدتے ہیں کہ ان کو پال کر بڑا کرکے بیچ دیں گے ۔

     (2)بعض لوگ اس نیت سے مرغیاں خریدتے ہیں کہ ان کی پرورش کرکے ان سے انڈے حاصل کریں گے اوران کے انڈے بیچیں گے، مرغیاں بیچنا مقصود نہیں ہوتا۔

    ان دونوں صورتوں میں مرغیاں خریدنے والے شخص کےلیے زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)پوچھی گئی صورت  میں یہ مرغیاں مال زکوٰۃ میں  شامل ہوں گی، لہذا اگر یہ تنہا نصاب کو پہنچ جاتی ہیں یا دیگر اموالِ زکوٰۃ (سونا، چاندی،مال تجارت،پرائز بانڈز اور کسی بھی ملک کی کرنسی) کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جاتی ہیں اور دیگر شرائط بھی پائی جائیں، تو اب ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔نصاب سے مراد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے مساوی کوئی مال مثلاً رقم وغیرہ ہے ۔

    جانوروں میں بھی اگر خریدتے وقت تجارت کی نیت کی جائے، تو اب ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی جو مالِ تجارت کے اصولوں کے مطابق ادا کی جائے گی۔ جیسا کہ درمختار میں ہے: ”ولو للتجارۃ ففیھا زکاۃ التجارۃ“ یعنی جانور اگر تجارت کےلیے رکھے ہوں، تو ان میں مال تجارت کی زکوٰۃ لازم ہوگی۔

                                                           (الدرالمختار متن ردالمحتار، جلد3، صفحہ234،  مطبوعہ کوئٹہ)

    تجارت کےلیے رکھے گئےجانوروں کی زکوٰۃ کا حکم بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں ہے: ”اگرتجارت کا جانورچرائی پر ہے، تو یہ بھی سائمہ نہیں، بلکہ اس کی زکوٰۃ قیمت لگا کر ا دا کی جائے گی۔“(بھار شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ892، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    تجارت کےلیے رکھے گئے جانوروں کی زکوٰۃ کا حکم بیان کرتے ہوئے فتاوی اہلسنت میں ہے: ”ان جانوروں پر بھی زکوٰۃ واجب ہے، لیکن چونکہ یہ  جانور سائمہ نہیں، بلکہ مال تجارت ہیں، لہذا ان جانوروں کی قیمت لگا  کر اس قیمت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃمیں  دیا

جائے گا۔“

  (فتاوی اھلسنت، کتاب الزکوٰۃ، صفحہ570، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    مال تجارت پر بھی زکوٰۃ لازم ہوتی ہے۔ جیسا کہ تحفۃ الفقہاء میں ہے: ”کل ما کان من اموال التجارۃ کائنا ما کان من العرض والعقار والمکیل والموزون وغیرھا تجب فیہ الزکوٰۃ اذا بلغ نصاب الذھب او الفضۃ وحال علیہ الحول“ یعنی ہر وہ چیز جو مال تجارت ہو، چاہے وہ سامان کی شکل میں ہو، زمین یا مکیلی و موزونی اشیا کی صورت میں  ہو، اس پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہے، جب اس کی قیمت سونے یاچاندی کے نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزر جائے۔

 (تحفۃ الفقھاء، جلد1، صفحہ271، بیروت)

    مال تجارت کےلیے ضروری ہے کہ خریدتے وقت ہی تجارت کی نیت کی جائے ۔ جیسا کہ درمختار میں ہے: ”(ما اشتراہ لھا) ای للتجارۃ( کان لھا) لمقارنۃ النیۃ لعقد التجارۃ“ یعنی اگر کسی نے تجارت کےلیے کوئی چیز خریدی، تو وہ تجارت کےلیے ہی ہوگی۔ کیونکہ اس کی نیت، تجارت کے عقد سے ملی ہوئی ہے۔

        (الدرالمختار متن ردالمحتار، جلد3، صفحہ229،مطبوعہ  کوئٹہ)

    فتاوی اہلسنت میں ہے: ”کسی چیز کے مال تجارت بننے کےلیے ضروری ہے کہ اس کو خریدتے وقت تجارت کی نیت کی جائے۔

  (فتاوی اھلسنت ، کتاب الزکوٰۃ، صفحہ126، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    فتاوی اہلسنت میں ہے: ”مال تجارت اس مال کو کہتے ہیں، جو بیچنے یا دکانداری کرنے کےلیے لیا گیا ہو اور اس مال پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے،بشرطیکہ  وہ مال تجارت  خود بقدر نصاب ہو یا کسی اور  مال زکوٰۃ کے ساتھ مل کر  بقدر نصاب ہوا اور اس مال پر سال بھی گزر چکا ہو۔

 (فتاوی اھلسنت ،کتاب الزکوٰۃ، صفحہ324، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    اگر مختلف قسم کے مال تجارت ہوں، تو ان کی قیمتوں کو آپس میں جمع کیا جائے گا۔جیسا کہ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے: ”عروض التجارۃ وان اختلف اجناسھا یضم بعضھا الی البعض  بالقیمۃ“ یعنی مختلف قسم کے مال تجارت ہوں، تو ان سب کی قیمتوں کو جمع کیا جائے گا۔

          (فتاوی تاتار خانیہ، جلد3، صفحہ159، ھند)

     (2)اس صورت حال کے مطابق مرغیوں پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی اور ان سے حاصل ہونے والے انڈوں پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ مال تجارت نہیں ہے کہ یہاں مرغیوں  کو بیچنا مقصود نہیں ہے، اس لیے وہ مال  تجارت نہیں اور انڈوں کو خریدا ہی نہیں گیا، اس لیے وہ بھی مال تجارت نہیں بنیں گے، کیونکہ مال تجارت کےلیے کسی چیز کو خریدنا ضروری ہے۔البتہ ان انڈوں  یا مرغیوں کو بیچنے کی صورت میں جو رقم حاصل ہوگی، وہ ضرورمال زکوٰۃ میں شامل ہوگی۔

عنایہ میں ہے: ”الذی یدخل بغیر صنعہ لا یعتبر فیہ نیۃ التجارۃ مجردۃ    بالاتفاق“ یعنی جو چیز  بغیر  کسی عمل دخل کےانسان کی ملکیت میں داخل ہو جائے، اس پر تجارت کی نیت کرنا بالاتفاق درست نہیں۔

(العنایہ ھامش فتح القدیر، جلد2، صفحہ178، بیروت)

    بہار شریعت میں ہے: ”جس عقد میں تبادلہ ہی نہ ہویا تبادلہ ہو، مگر مال سے نہ ہو ان دونوں قسم کے عقد   کے ذریعےاگر کسی چیز کا مالک ہوا، تو اس میں تجارت کی نیت صحیح نہیں۔“

(ملتقط از بھار شریعت، جلد1، حصہ5، صفحہ 883، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فتاوی اہلسنت میں ہے: ”فارمنگ کےلیے خریدی گئی مرغیاں، ان سے حاصل ہونے والے انڈے اورچوزے مال تجارت نہیں، لہذا ان پر زکوٰۃ نہیں۔“

(فتاوی اھلسنت ، کتاب الزکوٰۃ، صفحہ583، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    فتاوی اہلسنت میں ہے: ”زکوٰۃ چھ چیزوں پر فرض ہے  یعنی نصاب کا اعتبار کرنے میں ان چھ چیزوں کو ہی دیکھیں گے۔سونا، چاندی، مال تجارت، کسی بھی ملک کی کرنسی، پرائز بانڈ اورچرائی کے جانور۔“

   (فتاوی اھلسنت ، کتاب الزکوٰۃ، صفحہ 321، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم