عشر نکالنے کے بعد فصل کو بیچنے سے ملنے والی رقم پر زکوٰۃ کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6700

تاریخ اجراء:03شعبان المعظم1442ھ18مارچ2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے اپنی زمین پہ گندم کی فصل اُگائی تھی اور اس پہ عشر بھی ادا کر دیا تھا، عشر ادا کرنے کے بعد بقیہ گندم بیچ کر رقم محفوظ کر لی، تو سوال یہ ہے کہ اس رقم پر بھی زکوۃ فرض ہو گی یا نہیں؟ اگر فرض ہو گی، تو صاحبِ نصاب شخص  اسے پہلے والے نصاب میں شامل کرے گایا پھر اس کے لیے الگ سے سال گزرنا شرط ہو گا؟ کیونکہ میں پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں، میری کریانہ کی دکان ہے، جس میں کم و بیش پانچ لاکھ کا مالِ تجارت ہو گا اور میری زکوۃ کا سال 25 شعبان کو پورا ہوتاہے، تو اس اعتبار سے کیا گندم والی رقم پہلے والے نصاب میں شامل کریں گے یا پھر زکوۃ فرض ہونے کے لیے اس پر الگ سے سال گزرنا شرط ہو گا؟ گندم بیچے ہوئے چھ ماہ گزرے ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں عشر ادا کرنے کے بعد فصل کو بیچنے پر ملنے والی رقم مالِ زکوۃ میں شمار کی جائے گی اور اس پر بھی زکوۃ فرض ہو گی، پھر جب یہ مالِ زکوۃ ہے، تو آپ کے پہلے سے صاحبِ نصاب ہونے کی صورت میں اس رقم کو پہلے والے نصاب میں شامل کر دیا جائے گا اور جب 25 شعبان کو پہلے والے نصاب پر سال پورا ہو گا، تو فصل کی اس رقم پر بھی زکوۃ فرض ہو جائے گی، کیونکہ اصول یہ ہے کہ دورانِ سال حاصل ہونے والے مالِ زکوۃ کو پہلے سے موجود اس کے ہم جنس مالِ نصاب میں شامل کر دیا جاتا ہے، نئے مال پر جداگانہ سال گزرنا ضروری نہیں ہوتا، اگرچہ دونوں کے حاصل ہونے کے اسباب مختلف ہوں، لہذا 25 شعبان کو جب آپ مالِ تجارت کی زکوۃ ادا کریں گے، تو اس کے ساتھ گندم والی رقم کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہو گی۔

        عشر کی ادائیگی کے بعد فصل بیچنے پر ملنے والی رقم مالِ زکوۃ ہے ، لہذا اسے سابقہ نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ واما ثمن الطعام المعشور وثمن العبد الذی ادی صدقۃ فطرہ، فانہ یضم اجماعاً ‘‘ ترجمہ: جس کھانے کا عشر ادا کر دیا ہو یا جس غلام کا صدقہ فطر ادا کر دیا ہو، ان کا ثمن بالاجماع پہلے سے موجود مال کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔‘‘

(فتاوی عالمگیری، کتاب الزکاۃ، جلد 1، صفحہ 193مطبوعہ  کراچی)

    فتاوی نوریہ میں ہے:’’پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنے کے بعد اگر جنس کو محفوظ رکھا جائے کہ مہنگائی کے وقت فروخت سے فائدہ حاصل کیا جائے، تو سال گزرنے پر اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی ہے۔ ہاں! اگر فروخت کر دے، تو اس کی رقم مالِ تجارت کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور جب مالِ تجارت کا سال پورا ہو جائے، تو اس مال کی زکوۃ کے ساتھ اس رقم پر (جو پیداوار کی فروخت سے حاصل ہوئی ) بھی زکوۃ فرض ہو جاتی ہے، اگرچہ اس رقم کا سال پورا نہ ہوا ہو۔‘‘

  (فتاوی نوریہ، جلد 2، صفحہ 153، مطبوعہ دار العلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

    دورانِ سال حاصل ہونے والے مالِ زکوۃ کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے: ’’المستفاد في الحول ان كان من جنسه، فاما ان كان متفرعا من الاصل او حاصلا بسببه كالولد والربح واما لم يكن متفرعا من الاصل ولا حاصلا بسببه كالمشترى والموروث والموهوب والموصى به، فان كان متفرعا من الاصل او حاصلا بسببه يضم الى الاصل ويزكى بحول الاصل بالاجماع وان لم يكن متفرعا من الاصل ولا حاصلا بسببه، فانه يضم الى الاصل عندنا ‘‘ ترجمہ: دورانِ سال حاصل ہونے والا مال اگر (پہلے سے موجود) نصاب کی جنس سے ہو، تو ( دو صورتیں ہیں) یا تو اصل مال سے متفرع ہو گا یا اسی کے سبب سے حاصل ہوا ہو گا، جیسے (سائمہ جانوروں کے) بچے اور (مالِ تجارت کا) نفع، یا پھر اصل مال سے متفرع نہیں ہو گا اور نہ ہی اس کے سبب حاصل ہوا ہو گا، جیسے شراء، وراثت، ہبہ یا وصیت کے طور پہ حاصل ہونے والی کوئی چیز، پہلی صورت میں تو مالِ مستفاد اصل (سابقہ مالِ نصاب) میں ہی شامل ہو گا اور اصل مال کا سال پورا ہونے پر بالاجماع اس کی زکوۃ بھی ادا کی جائے گی اور دوسری صورت میں بھی ہم احناف کے نزدیک اسے اصل مال میں ہی شامل کریں گے۔‘‘

(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، فصل شرائط فرضیۃ الزکاۃ، جلد 2، صفحہ 96، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی رضویہ شریف میں ہے:’’پھر جو شخص مالک ِ نصاب ہےاور ہنوز حولانِ حول نہ ہو ا کہ سال کے  اندر ہی کچھ اور مال اسی نصاب کی جنس سے خواہ بذریعہ ہبہ یا میراث یا شراءیا وصیت یا کسی طرح اس کی ملک میں آیا ،تو وہ مال بھی اصل نصاب میں شامل کرکے اصل پر سال گزرنا اس سب پر حولان ِحول قرار پائے گا۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ86، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    سابقہ نصاب کے ساتھ ملانے کے معاملے میں سونا چاندی، روپیہ پیسہ اور مالِ تجارت ایک ہی جنس سے ہیں۔ چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہی ہے: ’’یہاں سونا چاندی تو مطلقاًایک ہی جنس ہیں خواہ ان کی کوئی چیز ہواور مالِ تجارت بھی انہی کی جنس سے گناجائےگا، اگر چہ کسی قسم کا ہو کہ آخر اس پر زکوٰۃ یوں ہی آتی ہے کہ اس کی قیمت سونے یا چاندی سے لگا کر انہیں کی نصاب دیکھی جاتی ہے،تو یہ سب مال زروسیم ہی کی جنس سے ہیں اور وسطِ سال میں حاصل ہوئے توذہب و فضہ کے ساتھ شامل کردئے جائیں گے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ86، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم