زکوٰۃ کا ایک اہم مسئلہ

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ  شعبان المعظم 1442 ھ اپریل

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)بعض لوگ اس نیت سے مرغیاں خریدتے ہیں ، کہ ان کو پال کر بڑا کرکے بیچ دیں گے۔

    (2)بعض لوگ اس نیت سے مرغیاں خریدتے ہیں کہ ان کی پرورش کرکے ان سے انڈے حاصل کریں گے اور ان کے انڈے بیچیں گے ، مرغیاں بیچنا مقصود نہیں ہوتا۔

    ان دونوں صورتوں میں مرغیاں خریدنے والے شخص کے لئے زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1)پوچھی گئی پہلی صورت میں یہ مرغیاں مالِ زکوٰۃ میں شامل ہوں گی ، لہٰذا اگر یہ تنہا نصاب کو پہنچ جاتی ہیں ، یا دیگر اموالِ زکوٰۃ (سونا ، چاندی ، مالِ تجارت ، پرائز بانڈز اور کسی بھی ملک کی کرنسی) کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جاتی ہیں ، اور دیگر شرائط بھی پائی جائیں ، تو اب ان پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔ نصاب سے مراد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے مساوی کوئی مال مثلاً رقم وغیرہ ہے۔

 (الدرالمختار متن ردالمحتار ، 3 / 234 ، بہارِ شریعت ، 1 / 892)

    (2)اس صورتِ حال کے مطابق مرغیوں پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی اور ان سے حاصل ہونے والے انڈوں پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی کیونکہ یہ مالِ تجارت نہیں ہے۔ مرغیوں کو بیچنا مقصود نہیں ہے ، اس لئے وہ مالِ تجارت نہیں ہے اور انڈوں کو خریدا ہی نہیں ، اس لئے وہ بھی مالِ تجارت نہیں بنے گا ، کیونکہ مالِ تجارت کےلئے کسی چیز کو خریدنا ضروری ہے۔ البتہ ان انڈے یا مرغیوں کو بیچنے کی صورت میں جو رقم حاصل ہوگی ، وہ ضرور مالِ زکوٰۃ میں شامل ہوگی۔

 (العنایہ ھامش فتح القدیر ، 2 / 178 ، ملتقط از بہارِ شریعت ، 1 / 883)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم