رہائش کے لیے خریدے ہوئے فلیٹ پر زکوٰۃکا حکم

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:  Kan-15810

تاریخ اجراء:20رمضان المبارک1442ھ/03مئی2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  میں نےرہائش کےلیے  ایک فلیٹ خریدا تھا،بعد میں اس کو کرائے پر چڑھادیا،  تو کیا اس   فلیٹ پر زکوۃ ہوگی ؟ اگر ہوگی تو اس کی قیمت پر یا کرائے  پر؟ براہ مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اولاً یاد رہے کہ   زکوٰۃ  صرف تین قسم کے اموال پر ہوتی ہے:

     (1)ثمن یعنی سونا ، چاندی (اس کے ساتھ تمام  ممالک کی کرنسی اورپرائز بانڈبھی  شامل ہیں)۔(2)چرائی پر چُھوٹے جانور۔(3)مالِ تجارت۔مالِ تجارت سے مراد وہ مال ہے جسے بیچنے کی نیت سے خریداہواورابھی تک وہی نیت  باقی بھی ہو۔ان کے علاوہ دیگر کسی بھی مال پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی۔

    چونکہ آپ نے  یہ فلیٹ رہائش کےلیے خریداتھا ،بیچنے کی نیت سے نہیں خریداتھا،  لہذا یہ مال ِتجارت نہ ہوا۔مزید دیگر دونوں اموال زکوٰۃ میں سے بھی نہیں ہے،  لہذا اس کی قیمت پر زکوٰۃ  نہیں ہے۔

    جہاں تک رہا کرائے  کا معاملہ تو اس پر زکوٰۃ کا حکم یہ ہے کہ اگر  کرائے کی رقم خود یا دیگر اموالِ زکوٰۃ کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائےاور ان اموال پر سال گزر جائے اور دیگر شرائطِ زکوٰۃ بھی پائی جائیں، تو کرائے کی رقم پر زکوٰۃ فرض  ہو گی  اوراگر   کرایہ خرچ ہوجاتا ہو ،اتنا جمع نہیں ہو پاتا  کہ وہ   کرایہ خود یا دیگر اموال زکوٰۃ کے ساتھ مل کر نصاب کی مقدارتک پہنچے، تو اس کرائے پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔

    چنانچہ محیط برہانی میں ہے:’’مال الزکاۃ الأثمان و ھو الذھب والفضۃ وأشباھھا والسوائم وعروض التجارۃ‘‘ترجمہ:زکوٰۃ کے مال (یہ)ہیں :ا ثمان یعنی سونا چاندی اور ان کی مثل (کوئی دوسری کرنسی) ، چرائی کے جانوراور تجارت کا سامان۔

(المحیط البرھانی ،کتاب الزکاۃ،الفصل الثالث ،جلد2،صفحہ383،مطبوعہ کوئٹہ)

    امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہواکہ زکوٰۃ کن کن اشیاء پر واجب ہے ؟ آپ علیہ الرحمۃ نے جواباًارشادفرمایا:’’سوناچاندی اورمال تجارت اورچرائی  پر چھوٹے  ہوئے جانور۔

(فتاوی رضویہ،جلد10،صفحۃ139،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    فتاویٰ ہندیہ میں ہے:’’و لو اشتری قدوراً من صفر یمسکھا و یؤاجرھا لا تجب فیھا الزکاۃ کما لا تجب فی بیوت الغلۃ۔‘‘ یعنی اگر پیتل کی دیگ خریدی اسے رکھے گا اور کرائے پر دے گا (تو) اس میں زکوٰۃ واجب نہیں جیسا کہ کرائے کے گھروں میں واجب نہیں۔ 

(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،صفحہ180،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی رضویہ میں ہے:’’(کرائے کے)مکانات پر زکوٰۃ نہیں، اگرچہ پچاس کروڑ کے ہوں، کرایہ سے جو سال تمام پر پس انداز ہو گا اس پر زکوٰۃ آئے گی، اگر خود یا اور مال سے مل کر قدرِ نصاب ہو۔‘‘

 (فتاوی رضویہ،جلد10،صفحہ161،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم