Artificial Zewrat Ki Zakat Ka Sharai Hukum

آرٹیفیشل زیورات کی زکوٰۃ کا شرعی حکم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:71

تاریخ اجراء: 05ذوالحجۃ الحرام1442ھ16جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آرٹیفیشل زیورات پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   آرٹیفیشل زیورات اگر تجارت کی غرض سے رکھے ہوں، تو ان پر دیگر شرائط کی موجودگی میں زکوۃ فرض ہو گی۔ البتہ اگر تجارت کے لئے نہ ہوں، بلکہ استعمال کرنے یا کسی اور مقصد کے لئے رکھے ہوں ،تو ان پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی، اگرچہ ان کی مالیت بہت زیادہ ہو،کیونکہ زکوۃ فقط تین قسم کے اموال پر لازم ہوتی ہے۔(1)ثمن یعنی سونا، چاندی (تمام ممالک کی کرنسیاں اور پرائز بانڈز بھی اسی میں شامل ہیں)۔(2)مالِ تجارت یعنی ایسا مال جو بیچنے کی نیت سے خریدا جائے۔(3) سائمہ یعنی چرائی پرگزارا کرنے والے  جانور جن سےمقصود دودھ، نسل یا فربہ کرنا ہوتا ہے۔اورغیر تجارتی آرٹیفیشل زیورات ان تینوں میں سے نہیں، لہذا ان پر زکوۃ بھی لازم نہ ہو گی۔

   مالِ تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے۔چنانچہ سننِ ابی داؤد میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ،وہ فرماتے ہیں:’’فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یامرنا ان نخرج الصدقۃ من الذی نعد للبیع‘‘ ترجمہ:پس بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اس چیز کی بھی زکوٰۃ ادا کریں  جس کو ہم تجارت کے لیے مہیا کریں۔(سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ،باب العروض اذا کانت للتجارۃ،ج1،ص228،مطبوعہ لاہور)

   فتاوی عالمگیری میں زکوٰۃ کی فرضیت کی شرائط کے بیان میں ہے:’’ومنھا کون النصاب نامیاحقیقۃ بالتوالد والتناسل والتجارۃ او تقدیراً بان یتمکن من الاستنماء بکون المال فی یدہ او فی ید نائبہ وینقسم کل واحد  منھما الی قسمین: خلقی وفعلی ،ھکذا فی التبیین،فالخلقی: الذھب والفضۃ ،لانھما لا یصلحان للانتفاع باعیانھما فی دفع الحوائج الاصلیہ، فتجب الزکاۃ فیھما نوی التجارۃ او لم ینو اصلاً او نوی النفقۃ والفعلی: ما سواھما ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ اوالاسامۃ  ونیۃ التجارۃ والاسامۃ لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارۃ او الاسامۃ‘‘ترجمہ:اورزکوٰۃ کی شرائط میں سے ایک شرط نصاب کا نامی(بڑھنے والا)ہونا بھی ہے۔(اب)مال حقیقتاً بڑھے(جیسے)جانوروں سے بچے اور نسل حاصل ہونےاور(مال کی )تجارت کے سبب  یا تقدیراً بڑھے بایں طور کہ مال اپنے یا نائب کے قبضہ میں ہونے کے سبب اسے بڑھانا ممکن ہو اور ان دونوں قسموں میں سے ہر ایک کی دوقسمیں ہیں:خلقی اور فعلی۔ ایسے ہی تبیین میں ہے۔پس خلقی:تو وہ سونا چاندی ہے،کیونکہ یہ دونوں اس چیز کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ حاجتِ اصلیہ کو دور کرنے میں بعینہ ان سے نفع اٹھایا جا سکے،پس ان دونوں میں زکوٰۃ واجب ہوگی ،تجارت کی نیت کی ہو یا اصلاً تجارت کی نیت نہ ہو یا خرچ کرنے کی نیت ہو۔اور فعلی :تو وہ ان دونوں کے سوا چیزیں ہیں اور ان میں بڑھوتری تجارت کی نیت یا جانوروں کو سائمہ بنانے کے ساتھ ہوگی  اور تجارت اورجانوروں کو سائمہ بنانے کی نیت معتبر نہیں ہوگی جب تک یہ نیت تجارت یا سائمہ بنانے کے فعل کے ساتھ ملی ہوئی نہ ہو۔ (فتاوی عالمگیری،ج1،ص192،مطبوعہ کراچی)

   اسی بارے میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’مالِ نامی ہونا یعنی بڑھنے والا خواہ حقیقۃ بڑھے یا حکماً یعنی اگر بڑھانا چاہے ،تو بڑھائے یعنی اس کے یا اس کے نائب کے قبضہ میں ہو،ہر ایک کی دو صورتیں ہیں ۔وہ اسی لئے ہی پیدا کیا گیا ہو ،اسے خلقی کہتے ہیں، جیسے سونا چاندی، کہ یہ اسی لئے پیدا ہوئے کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں یا اس لئے مخلوق تو نہیں،مگر اس سے یہ بھی حاصل ہوتا ہے،اسے فعلی کہتے ہیں۔سونے چاندی کے علاوہ سب چیزیں فعلی ہیں، کہ تجارت سے سب میں نمو ہوگا۔سونے چاندی میں مطلقاً زکاۃ واجب ہے،جب کہ بقدر نصاب ہوں ،اگرچہ دفن کر کے رکھے ہوں، تجارت کرے یا نہ کرے اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکاۃ اس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیت ہو یا چرائی پر چھوٹے جانور وبس۔خلاصہ یہ کہ زکاۃ تین قسم کے مال پر ہے:(1)ثمن یعنی سونا چاندی،(2)مالِ تجارت،(3)سائمہ یعنی چرائی پر چھوٹے جانور۔(بھارِ شریعت،ج1،ص882،مطبوعہ،مکتبۃ المدینہ)

   جو چیزاوپر بیان کردہ تین اموال(سونا چاندی ،مالِ تجارت اور سائمہ جانوروں) کے علاوہ زینت حاصل کرنے کے لئے ہو،اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔اس بارے میں مبسوط سرخسی میں ہے:’’ وليس۔۔ زكاة۔۔ما يتجمل به من آنية او لؤلؤ وفرس ومتاع لم ينو به التجارة، لان نصاب الزكاة المال النامي ومعنى النماء في هذه الاشياء لا يكون بدون نية التجارة، وكذلك الفلوس يشتريها للنفقة فانها صفر والصفر ليس بمال الزكاة باعتبار عينه بل باعتبار طلب النماء منه، وذلك غير موجود فيما اذا اشتراه للنفقة ‘‘ترجمہ: اور جن چیزوں سے زینت حاصل کی جاتی ہے ،ان پر زکوٰۃ فرض نہیں،جیسے(سونے چاندی کے علاوہ دیگر)برتن،موتی،گھوڑا اور ایسا سامان جس میں تجارت کی نیت نہ ہو،کیونکہ زکوٰۃ کا نصاب مالِ نامی ہوتا ہے اور ان چیزوں میں تجارت کی نیت کے بغیر نمو(بڑھوتری)والا معنی نہیں پایاجاتا۔اور اسی طرح پیتل کےسکے خرچ کرنے کے لئے خریدے(تو ان میں بھی زکوٰۃ لازم نہیں)،کیونکہ یہ پیتل ہے اور پیتل اپنے عین کے اعتبار سے مال ِزکوٰۃ نہیں ،بلکہ اس سے نموطلب کرنے کے اعتبار سے مالِ زکوٰۃ ہے اور جب اسےخرچ کرنے کے لئے خریدا ،تو نمو طلب کرنے والا معنی اس میں نہیں پایا جائے گا۔

(مبسوطِ سرخسی،زکاۃ الحلی،ج2،ص264،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم