Beauty Parlor Mein Mojood Make Up Par Zakat Ka Kya Hukum Hai ?

بیوٹی پارلر میں موجود میک اپ پر زکوٰۃ

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:72

تاریخ اجراء: 18ذوالحجۃ الحرام1442ھ29جولائی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ بیوٹی پارلرمیں میک اپ کے لئے رکھے ہوئے سامان کہ جس سے دلہا، دلہن وغیرہ کو تیار کیا جاتاہے، اس پر زکوٰۃ لازم ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جواب جاننے سے قبل تمہیداً یہ قاعدہ سمجھ لیجئے کہ پیشہ وروں کے پاس کام میں استعمال ہونے والے آلات یا سامان تین طرح کا ہوتا ہے۔(1) جسےباقی رکھ کر نفع اٹھایا جاتا ہے۔ (2) جسے ہلاک کر کے نفع اٹھا یا جاتاہےاورکام میں اس کا عین یا اثر باقی نہیں رہتا۔(3)جسے ہلاک کر کے نفع اٹھایا جاتا ہے، لیکن کام میں اس کا عین یا اثر باقی رہتا ہے۔ان میں سے  پہلی دو قسموں کے سامان پر زکوٰۃ واجب نہیں،جبکہ تیسری قسم کے سامان پر زکوٰۃ واجب ہے۔

   اس تفصیل کے بعد غور کیا جائے،تو بیوٹی پارلر میں میک اپ کے دوران استعمال ہونے والی اشیاء بھی تین طرح کی  ہوتی ہیں، جن کی تفصیل اور حکم درج ذیل ہے:

   (1)جنہیں باقی رکھ کر نفع حاصل کیا جاتا ہے، مثلاً میک اپ میں استعمال ہونے والےمختلف برش، تھریڈنگ اور بالوں کو ڈائی کرنے والی مشینری وغیرہ۔

   (2)جنہیں ہلا ک کر کے نفع اٹھایا جاتا ہے اور کام میں ان کا عین یا اثر باقی نہیں رہتا، جیسے مساج اور فِشل میں استعمال ہونے والی کریمیں، کہ وقتی طور پر فِشل/ مساج کر کے انہیں اتار دیتے ہیں اور بدن پر ان کا اثر بھی باقی نہیں رہتا، کیونکہ ان کریموں کو چہرے/ بدن کی میل چھڑانے اور کیل مہاسے وغیرہ ختم کرنے کے بعد اتار دیا جاتا ہے۔

   ان دونوں قسموں کے  سامان پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی،اگرچہ اس  کی مالیت بہت زیادہ ہو اور اس پر سال بھی گزر چکا ہو، کیونکہ یہ مال تجارت نہیں ۔

   (3) جنہیں ہلاک کر کے نفع اٹھایا جاتا ہے، لیکن کام میں ان کا عین یا اثر باقی رہتا ہے،جیسے بیس پاؤڈر، لپ اسٹک، کاجل، آئی لائنر، نیل پالش،مہندی،مصنوعی پلکیں اور ناخن  وغیرہ،کہ ان کا عین یا اثربدن پر باقی رکھ کر زینت حاصل کی جاتی ہے۔اس قسم کے سامان پر زکوۃ فرض ہو گی،  بشرطیکہ زکوۃفرض ہونے کی تمام  شرائط پائی جا ئیں، کیونکہ یہ اشیا مال تجارت میں سے ہیں۔

   وضاحت: جس چیز کا عین یااثر کام میں باقی رہتا ہے،اس پر فرضیتِ زکوۃ کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کام کے بدلے ملنے والی اجرت کا کچھ حصہ اس عین یا اس کے اثر کے مقابلے میں بھی ہوتا ہے ،گویا کام کرنے والا اپنی محنت کے ساتھ ان چیزوں کو بھی بیچ رہا ہوتا ہے، لہذا ان چیزوں کا شمار مالِ تجارت میں سے ہو گاا ور مالِ تجارت پر زکوۃ فرض ہوتی ہے۔ البتہ جس چیز کا عین یا اثر کام میں باقی نہیں رہتا، اس میں اجرت عین یا اثر کے مقابلے میں نہیں ہوتی،بلکہ فقط محنت کے عوض ہوتی ہے ،لہذا ایسی چیزوں کے مالِ تجارت نہ ہونے کی وجہ سے ان پر زکوٰۃ بھی لازم نہیں ہوگی۔

   مالِ تجارت پر زکوٰۃ فرض ہے۔چنانچہ سننِ ابی داؤد میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ،وہ فرماتے ہیں:’’فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یامرنا ان نخرج الصدقۃ من الذی نعد للبیع ‘‘ ترجمہ:پس بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اس چیز کی بھی زکوٰۃ ادا کریں  جس کو ہم تجارت کے لئے مہیا کریں۔(سنن ابی داؤد،کتاب الزکوٰۃ،باب العروض اذا کانت للتجارۃ،ج1،ص228،مطبوعہ لاھور)

   درراور اس کی شرح غرر میں زکوٰۃ کی فرضیت کی شرائط میں ہے:’’فارغ۔۔عن الحاجۃ الاصلیۃ۔۔فلا تجب ۔۔فی دور السکنی ۔۔وآلات المحترفین‘‘ترجمہ:(زکوٰۃ کی فرضیت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ )نصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو،پس رہائشی گھروں  اور پیشہ وروں کے آلات میں زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی۔(درر مع شرح غرر،ج1،ص172،مطبوعہ،دار احیاء الکتب)

   ’’آلات المحترفین‘‘ کے تحت حاشیہ شرنبلا لی میں ہے:’’المراد بھا ما لا یستھلک عینہ فی الانتفاع کالقدوم والمبرد او ما یستھلک ولا تبقی عینہ کصابون وحرض لغسال حال علیہ الحول ویساوی نصابا ،لان الماخوذ بمقابلۃ العمل ،اما لو اشتری ما تبقی عینہ کعصفر وزعفران لصباغ ودھن وعفص لدباغ فان فیہ الزکوۃ،لان الماخوذ فیہ بمقابلۃ العین‘‘ترجمہ: ان سے مراد ایسے آلات ہیں جن سے نفع اٹھانے میں عین ہلاک نہیں ہوتا،جیسے بڑھئی کا تیشہ اور رندا۔یاجو ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان کا عین باقی نہیں رہتا جیسا کہ صابون اور اشنان کپڑے دھونے والے کے لئے ،ان پر سال گزر جائے اور یہ نصاب کے برابر ہوں(تب بھی زکوٰۃ لازم نہیں) کیونکہ اجرت کام کے بدلے میں ہے۔بہرحال ایسی چیز خریدی جس کا عین باقی رہتا ہے جیسا کہ رنگریز کے لئے عصفر(ایک زرد رنگ کی بوٹی جس سے کپڑے رنگے جاتے ہیں)اور زعفران اور دباغت کرنے والے کےلئے تیل اور مازو(ایک قسم کی دوا جو سیال شے کو گاڑھا کر دیتی ہے)،توان میں زکوٰۃ ہوگی،اس لئے کہ اجرت عین کے مقابلے میں(بھی)ہے۔(حاشیہ شرنبلالی مع درر شرح غرر،ج1،ص173،مطبوعہ،دار احیاء الکتب)

   بدائع الصنائع میں ہے:’’واما الاجراء الذين يعملون للناس نحو الصباغين والقصارين والدباغين اذا اشتروا الصبغ والصابون والدهن ونحو ذلك مما يحتاج اليه في عملهم ونووا عند الشراء ان ذلك للاستعمال في عملهم ،هل يصير ذلك مال التجارة؟ روى بشر بن الوليد عن ابي يوسف ان الصباغ اذا اشترى العصفر والزعفران ليصبغ ثياب الناس فعليه فيه الزكاة، والحاصل ان هذا على وجهين: ان كان شيئا يبقى اثره في المعمول فيه كالصبغ والزعفران والشحم الذی يدبغ به الجلد، فانه يكون مال التجارة، لان الاجر يكون مقابلة ذلك الاثر وذلك الاثر مال قائم، فانه من اجزاء الصبغ والشحم، لكنه لطيف، فيكون هذا تجارة، وان كان شيئا لا يبقى اثره في المعمول فيه مثل الصابون والاشنان والقلي والكبريت ،فلا يكون مال التجارة، لان عينها تتلف ولم ينتقل اثرها الى الثوب المغسول، حتى يكون له حصة من العوض، بل البياض اصلي للثوب يظهر عند زوال الدرن،فما ياخذ من العوض يكون بدل عمله،لا بدل هذه الآلات ،فلم يكن مال التجارة‘‘ترجمہ:بہر حال کاریگر جو لوگوں کے کام کرتے ہیں جیسے رنگریز،دھوبی اور کھالوں کی دباغت کرنے والے،جب یہ رنگ،صابون  ،تیل اور ان جیسی دیگر چیزیں خریدیں کہ جن کی انہیں اپنے کام میں ضرورت پڑتی ہے اور ان چیزوں کو خریدتے وقت یہ نیت کریں  کہ یہ ان کے کام میں استعمال کے لئے ہیں ،تو کیا یہ مالِ تجارت ہوں گی؟بشر بن ولید نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے روایت  کیا کہ بیشک رنگریز نے عصفراور زعفران خریدا ،تاکہ وہ اس سے لوگوں کے کپڑے رنگے،تو اس پر زکوٰۃ لازم ہوگی اور حاصل یہ ہے کہ بیشک یہ مسئلہ دوصورتوں پر مشتمل ہے:ایک یہ کہ اگر وہ ایسی چیز ہو کہ کام میں اس کا اثر باقی رہے جیسا کہ رنگ، زعفران اور وہ چربی جس سے کھالوں کی دباغت کی جاتی ہے،پس یہ مالِ تجارت ہوگا،کیونکہ یہاں اجرت اس اثر کے مقابلے میں (بھی) ہوگی اور یہ اثر مال ہے جو( کپڑے اور کھال کے ساتھ)قائم ہے ،کیونکہ یہ رنگ اور چربی کے اجزاء ہیں،لیکن بہت باریک  ہیں،پس یہ مالِ تجارت ہوگا۔اوراگروہ ایسی چیز ہے کہ  کام میں اس کا اثر باقی نہ رہےجیسے صابون ،اشنان ،قلی(ایک قسم کے کھار کا نام ہے،جواسی نام کے ایک پودے کی راکھ سے بنایا جاتاہے) اور گندھک،تویہ مالِ تجارت نہیں ،کیونکہ ان کا عین ہلاک ہوجائے گا اور ان کا اثر دھلے ہوئے کپڑے کی طرف منتقل نہیں ہوگا،یہاں تک کہ عوض میں سے ایک حصہ اثر کے مقابلہ میں ہو،بلکہ کپڑے کی سفیدی اصلی ہے ،جو کپڑے سے میل ختم ہونے کے وقت ظاہر ہوگی،پس وہ جتنا بھی عوض لے گا وہ اس کے کام کا بدل ہوگا،نہ کہ ان آلات کا بدل ،لہذا یہ مالِ تجارت بھی نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع،ج2،ص95،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم