Gift Mein Mile Hue Plot Ki Zakat Ka Hukum

گفٹ میں ملے ہوئے پلاٹ کی زکوۃ کا حکم؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-1980

تاریخ اجراء: 16جمادی الاخریٰ 1442ھ/30جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے اپنے بیٹے کو ایک پلاٹ ہبہ ( گفٹ ) کر کے قبضہ دِلا دیا ۔ زید نے وہ پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدا تھا ۔ کل قیمت تیس لاکھ تھی ، جس میں سے پندرہ لاکھ دے چکا تھا ۔ بیٹے کو پلاٹ ہبہ کر کے بقیہ پندرہ لاکھ بھی ادا کرنے کا کہہ دیا اور رقم بیٹا ہی ادا کرے گا ۔اب دو سوالوں کے جواب مطلوب ہیں:

(1) بیٹے پر پلاٹ کی زکوٰۃ ہوگی یا نہیں؟

(2) پلاٹ کی قیمت کی بقیہ رقم کا حکم کیا ہوگا؟ کیونکہ وہ باپ پر لازم ہوئی تھی اور اب بیٹے نے ادا کرنی ہے؟ اسے زکوٰۃ سے مانع قرض کس کے حق میں شمار کریں گے؟ باپ کے یا بیٹے کے؟

   نوٹ : والد نے بیٹے کو صرف تبرعاً بقیہ رقم ادا کرنے کا کہا ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)پوچھی گئی صورت میں اگر بیٹے کی نیت بھی بیچنے ہی کی ہے ، تو بیٹے پر اس پلاٹ کی زکوٰۃ لازم ہوگی اور اگر ہبہ کے بعد بیٹا اس پلاٹ سے تجارت کے علاوہ کوئی اور نیت مثلا : کرائے پر دینے کی یا خود رہائش کرنے کی نیت کر لے ، تو پھر اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی ۔

   اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ زکوٰۃ تین طرح کی چیزوں پر لازم ہوتی ہے : (1) سونا چاندی ( کرنسی ، پرائز بانڈز بھی اسی میں شامل ہیں ) ۔ (2) مالِ تجارت ۔ (3) چرائی کے جانور ۔ مالِ تجارت کے لیے ضروری ہے کہ چیز خریدتے وقت آگے بیچنے کی نیت ہو ، اگر چیز خریدی ہی نہیں ، بلکہ کسی نے گفٹ کی یا وراثت میں ملی ، تو اگرچہ اس کو بیچنے کی نیت کر لے ، وہ مالِ تجارت نہیں ہوگا اور اس کی زکوٰۃ بھی لازم نہیں ہوگی ، ہاں اگر وہ پہلے سے مالِ تجارت ہو اور پھر بغیر خریدے مثلا : کسی نے اسے وہ مال گفٹ کر دیا یا مالِ تجارت ہی وراثت میں ملا اور ان دونوں صورتوں میں اس نے بھی بیچنے ہی کی نیت باقی رکھی ، تو وہ مالِ تجارت ہی شمار ہوگا اور اس کی زکوٰۃ لازم ہوگی ، جس کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ اگر بندہ پہلے سے صاحبِ نصاب تھا، تو گفٹ یا وراثت میں ملنے والے اِس مالِ تجارت کو بھی اُسی نصاب کے ساتھ ملا کر تمام کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں تھا ، تو پھر جب سے یہ مالِ تجارت اس کی ملکیت میں آیا ہے ، اس وقت سے اس کے نصاب کا سال شروع ہوجائے گا اور آئندہ سال زکوٰۃ کی دیگر شرائط پائے جانے سے زکوٰۃ ادا کرے گا اور اگر مالِ تجارت سے تجارت کے علاوہ کوئی اور نیت کر لی جائے ، تو وہ مالِ تجارت سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر بیٹے کی نیت بھی بیچنے ہی کی ہے ، تو بیٹے پر اس پلاٹ کی زکوٰۃ لازم ہوگی اور اگر ہبہ کے بعد اس پلاٹ سے بیٹے کی نیت بیچنے کی نہیں ہے ، تو اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی ۔

   زکوٰۃ کس طرح کے مال پر لازم ہوتی ہے ، اس سے متعلق بدائع الصنائع میں ہے : ’’ أموال الزكاة أنواع ثلاثة أحدها: الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة، والثاني: أموال التجارة وهي العروض المعدة للتجارة، والثالث: السوائم‘‘ ترجمہ : زکوٰۃ کے مال کی تین قسمیں ہیں : (1) مطلق ثمن یعنی سونا چاندی (اورہر طرح کی کرنسی )۔ (2) مالِ تجارت ۔ (3) چرائی کے جانور ۔( بدائع الصنائع ، کتاب الزکوٰۃ ، جلد 2 ، صفحہ 100 ، مطبوعہ بیروت )

   مالِ تجارت ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا سامان، مکان وغیرہ تجارت کی نیت سے خریدنے سے ہی مالِ تجارت ہوگا ، اگر بغیر خریدے کوئی ایسی چیز ملی کہ جو پہلے سے مالِ تجارت نہیں ، تو اس میں تجارت کی نیت کرنے سے بھی تجارت کی نہیں ہوگی ، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے : ’’ نية التجارة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة وما ملكه بعقد ليس فيه مبادلة أصلا كالهبة والوصية والصدقة فإنه لا يصح فيه نية التجارة وهو الأصح كذا في البحر الرائق ولو ورثه فنواه للتجارة لا يكون لها ملخصاً ‘‘ ترجمہ : تجارت کی نیت اس وقت تک معتبر نہیں ہوگی ، جب تک عملِ تجارت کے ساتھ نیت ملی ہوئی نہ ہو اور جس ایگریمنٹ میں بالکل مال کا تبادلہ ہی نہ ہو ، جیسا کہ گفٹ ، وصیت اور صدقہ ، اس ایگریمنٹ کے ذریعے (تجارت کے علاوہ ) کسی چیز کا مالک بنا ، تو اس میں تجارت کی نیت درست نہیں ہوگی ۔ یہی زیادہ صحیح ہے ۔ جیسا کہ بحر الرائق میں ہے ، (لہٰذا ) اگر کوئی مال ( کہ جو پہلے سے تجارت کا نہیں تھا ) وراثت میں ملا اور اس میں تجارت کی نیت کر لی ، تو وہ مالِ تجارت نہیں ہوگا ( اور اس میں زکوٰۃ بھی لازم نہیں ہوگی ) ۔( فتاویٰ عالمگیری ، کتاب الزکوٰۃ ، الباب الاول ، جلد 1 ، صفحہ 174 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   مالِ تجارت ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر ہبہ یا وراثت میں ملنے والا مال ، مالِ تجارت ہی ہو ،اور جسے ملا اس نے بھی تجارت کی نیت باقی رکھی تو اسے گزشتہ نصاب کے ساتھ ملانے اور نیا سال شروع ہونے کے اعتبار سے اس کی زکوٰۃ سے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہی ہے : ’’ ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله و زكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك ۔۔۔ فإن استفاد بعد حولان الحول فإنه لا يضم ويستأنف له حول آخر بالاتفاق ملخصاً ‘‘ ترجمہ : صاحبِ نصاب شخص کو دورانِ سال ( پہلے سے موجود مالِ نصاب کے ) ہم جنس مال مل گیا ، تو اس کو ( پہلے سے موجود) مالِ زکوٰۃ کے ساتھ ملائے گا اور اس کی زکوٰۃ ادا کرے گا ( دورانِ سال ) وہ زیادتی پہلے سے موجود مال سے حاصل ہو یا کسی اور طریقے مثلا : وراثت ، گفٹ یا کسی اور طریقے سے ( حاصل ہو ) اور اگر سال پورا ہونے کے بعد حاصل ہو ، تو پھر پہلے نصاب کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا ، بلکہ بالاتفاق نیا سال شروع ہوگا ۔( فتاویٰ عالمگیری ، کتاب الزکوٰۃ ، الباب الاول ، جلد 1 ، صفحہ 175 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   اسی طرح بہارِ شریعت میں ہے : ’’ جو شخص مالک نصاب ہے ، اگر درمیان سال میں کچھ اور مال اسی جنس کا حاصل کیا ، تو اُس نئے مال کا جدا سال نہیں، بلکہ پہلے مال کا ختم سال اُس کے لیے بھی سالِ تمام ہے، اگرچہ سال تمام سے ایک ہی منٹ پہلے حاصل کیا ہو، خواہ وہ مال اُس کے پہلے مال سے حاصل ہوا یا میراث وہبہ یا اور کسی جائز ذریعہ سے ملا ہو ۔‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 5 ، جلد 1 ، صفحہ 884 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن درمیانِ سال ہبہ کے ذریعے ملے ہوئے مالِ تجارت سے متعلق فرماتے ہیں : ’’ جو شخص مالک ِ نصاب ہے اور ہنوز حولان حول نہ ہو ا ( یعنی ابھی تک سال نہیں گزرا ) کہ سال کے اندر ہی کچھ اور مال اسی نصاب کی جنس سے ، خواہ بذریعہ ہبہ یا میراث یا شرا ( خریداری ) یا وصیّت یا کسی طرح اس کی ملک میں آیا ، تو وہ مال بھی اصل نصاب میں شامل کرکے اصل پر سال گزرنا ، اُ س سب پر حولان حول قرار پائے گا اور یہاں سونا چاندی تو مطلقاًایک ہی جنس ہیں ، خواہ ان کی کوئی چیز ہو اور مال تجارت بھی انہی کی جنس سے گِنا جائے گااگر چہ کسی قسم کا ہو کہ آخر اس پر زکوٰۃ یوں ہی آتی ہے کہ اس کی قیمت سونے یا چاندی سے لگا کر انھیں کی نصاب دیکھی جاتی ہے ، تو یہ سب مال زروسیم ہی کی جنس سے ہیں اور وسط سال ( یعنی سال کے درمیان ) میں حاصل ہوئے ، توذہب و فضّہ ( سونا چاندی ) کے ساتھ شامل کردئے جائیں گے ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 86 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   مالِ تجارت سے کوئی اور نیت کر لی ، تو وہ تجارت سے خارج ہوجاتا ہے اور اس پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی ۔ چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے : ’’ ولو اشتری الرجل دارا او عبدا للتجارۃ ثم اجرہ یخرج من ان یکون للتجارۃ ‘‘ ترجمہ : کسی شخص نے کوئی گھر یا غلام تجارت کے لیے خریدا ، پھر وہ کرائے پر دے دیا ، تو مالِ تجارت ہونے سے خارج ہوجائے گا ۔( فتاویٰ قاضی خان ، کتاب الزکوٰۃ ، فصل فی مال التجارۃ ، جلد 1 ، صفحہ 221 ، مطبوعہ کراچی )

   (2)اور پلاٹ کی بقیہ رقم باپ نے بیٹے کو جو ادا کرنے کا کہا ہے ، وہ بیٹے پر قرض شمار نہیں ہوگی اور بیٹے پر زکوٰۃ لازم ہونے کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی ، بلکہ اگر بیٹا خود صاحبِ نصاب ہے ، تو اگرچہ اس کے والد پر ادا کرنے والی رقم رہتی ہے ، اس کی وجہ سے بیٹے کی زکوٰۃ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ، وہ اپنی پوری زکوٰۃ ادا کرے گا ، کیونکہ وہ رقم ادا کرنا والد پر لازم ہے ، تو والد پر ہی قرض شمار ہوگی ، دنیاوی لحاظ سے باپ بیٹے کا معاملہ اگرچہ کتنا ہی ایک جیسا ہو ، شرعی اعتبار سے الگ الگ ہے ، یعنی جو قرض باپ پر ہے ، وہ شرعاً باپ پر ہی لازم ہوگا ، بیٹے سے جبراً مطالبہ نہیں ہوسکتا اگرچہ بیٹا تبرع اور خیر خواہی کے طور پر ادا کرنے کا وعدہ بھی کر لے ، لہٰذا جب بیٹے پر وہ رقم ادا کرنا ہی لازم نہیں ، تو وہ قرض میں بھی شمار نہیں ہوگی اور بیٹے پر زکوٰۃ لازم ہونے سے مانع بھی نہیں ہوگی ، البتہ نصاب کا سال پورا ہونے سے پہلے جو رقم پلاٹ کی مد میں ادا کرے گا ، اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی اور نصاب کا سال پورا ہونے پر جو رقم بیٹے کے پاس موجود ہو ، اس میں سے مکان کی مد میں ادا کرے گا ، تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی ، کیونکہ اس کی زکوٰۃ پہلے سے ہی لازم ہوچکی تھی ۔

   اسی طرح کے ایک مسئلے کے متعلق امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ’’عورت اور شوہر کا معاملہ دنیاکے اعتبار سے کتنا ہی ایک ہو ، مگر اﷲعزّوجل کے حکم میں وُہ جدا جدا ہیں ۔ جب تمھارے ( بیوی کے ) پاس زیور زکوٰۃ کے قابل ہے اور قرض تم پر نہیں ، شوہر پر ہے ، تو تم پر زکوٰۃ ضرور واجب ہے اور ہر سال تمام پر زیور کے سوا جو روپیہ یا اور زکوٰۃ کی کوئی چیز تمھاری اپنی ملک میں تھی ، اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہُوئی۔ جو روپے تم نے بغیر شوہر کے کہے ، بطور خود ان کے قرضہ میں دے دیا ، وہ تمھار ااحسان سمجھاجائے گا ۔ اس کا مطالبہ شوہرسے نہیں ہوسکتا ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 168 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   درمیانِ سال رقم خرچ ہونے والی زکوٰۃ میں شمار نہیں ہوگی ، چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’ سال کے اندر جو مال اور ملتا گیا ، اُسی کے ساتھ ملتا رہے گا۔ سال تمام ( یعنی سال پورا ہونے ) پر دیکھیں گے ، سب خرچوں سے بچ کر حوائجِ اصلیہ سے فاضل (زائد ) کتنا روپیہ اس کی مِلک میں ہے ؟ خواہ اس کے اپنے پاس رکھا ہو یا کسی کے پاس امانت ہویا کسی کو قرض دے دیا ہو ، اُس قدر پر زکوٰۃ واجب آئے گی اور جو سال تمام ہونے سے پہلے صَرف ( خرچ ) ہوگیاہو ، وُہ حسابِ زکوٰۃ میں محسوب ( شمار ) نہ ہوگا ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 149 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

   مال پر زکوٰۃ لازم ہونے کے بعد خرچ کر ڈالا ، تو اس کی زکوٰۃ سے متعلق امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’ جبکہ مال پر سال گزرگیا اور زکوٰۃ واجب الاداء ہوچکی، اور ہنوز ( ابھی تک زکوٰۃ ) نہ دی تھی کہ مال کم ہوگیا، یہ تین حال سے خالی نہیں کہ سببِ کمی استہلاک ہوگا یا تصدّق یا ہلاک۔ استہلاک کے یہ معنی کہ اس نے اپنے فعل سے اُس رقم سے کُچھ اتلاف ( ضائع ) ، صَرف ( خرچ ) کر ڈالا، پھینک دیا، کسی غنی کو ہبہ کر دیا۔۔۔ اب صورتِ اُولیٰ یعنی استہلاک میں جس قدر زکوٰۃ سال تمام پر واجب ہو لی تھی ، اُس میں سے ایک حبّہ ( ایک دانہ ) نہ گھٹے گا ، یہاں تک کہ اگر سارا مال صَرف کردے اور بالکل نا دار محض ہوجائے تاہم قرضِ زکوٰۃ بدستورہے ۔ ‘‘( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 90، 91 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم