Jootay Bechne Wale Ka Zakat Ki Mad Mein Jootay Dena

جوتے بیچنے والے کا زکوٰۃ کی مد میں جوتے دینے کا حکم

مجیب:مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1593

تاریخ اجراء:10رمضان المبارک1445 ھ/21مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میری ایک جوتوں کی دکان ہے، میری جتنی زکوۃ بنتی ہے، کیااس کی رقم کا حساب کر کے اس کے بدلے میں جوتے مستحق افراد میں زکوۃ کی نیت سےتقسیم کر سکتا ہوں؟ اگر کرسکتاہوں، تو اس کی کیا قیمت لگا سکتا ہوں وہ قیمت لگانی ہوگی جو ہول سیل پر دکان کے لئے خریدا گیا ہے یا پروفٹ لگا کر؟ جبکہ پرافٹ فکس نہیں ہوتا، تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کے لیے جوتوں کے ذریعے زکوۃ اد اکرناجائز ہے اس صورت میں  سال مکمل ہونے کے دن آپ پر جتنی زکوۃ بنتی ہے اتنی ہی مالیت کے جوتے بطور زکوۃ دینے ہوں گے مثلا آپ پر پچاس ہزار روپے زکوۃ بنتی ہے تواب مارکیٹ ریٹ کےحساب سے پچاس ہزار روپے کےجوتے بطور زکوۃ اداکریں گے ۔اور یہاں مارکیٹ ویلیو کا اعتبار ہو گا  خریدنے یا بیچنے  کی قیمت کا اعتبار نہیں ہے    اور مارکیٹ ویلیو سے مراد یہ  ہے کہ مارکیٹ میں  یہ جوتا عام طور پر کتنے میں بیچا جاتا ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے:”تجارت کی نہ لاگت پر زکاۃ ہے نہ صرف منافع پر ، بلکہ سالِ تمام کے وقت جو زرِ منافع ہے اور باقی مالِ تجارت کی جو قیمت اس وقت بازار کے بھاؤ سے ہے ، اس پر زکوۃ ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ 329، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم