Kya Ghareeb Kafir Ko Zakat De Sakte Hain ?

کیا غریب کافر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13099

تاریخ اجراء: 25ربیع الثانی1445 ھ/10نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ اگر کوئی غیر مسلم کافی غریب ہو، تو کیا اس غیر مسلم کی زکوٰۃ کی رقم سے مدد کی جاسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کافر خواہ حربی ہو یا ذمی بالاتفاق اُسے زکوۃ دینا جائز نہیں، کیونکہ زکوٰۃ کی درست  ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ خالصۃً اللہ عزوجل کی رضا کے لیےاپنا ہر قسم کا نفع ختم کرکے کسی غیر ہاشمی مستحقِ زکوٰۃ مسلمان  کو زکوٰۃ کی نیت سے اس  رقم وغیرہ  کا مالک بنادیا جائے۔

   زکوۃ کی شرعی تعریف تنویرالابصار میں ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے:”ھی تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ عن الملک من کل وجہ للہ تعالیٰ۔یعنی اللہ عزوجل کی رضا کے لئے شارع کی طرف سے مقرر کردہ مال کے ایک جزء کا مسلمان فقیر کو مالک کردینا، جبکہ وہ فقیر نہ ہاشمی اور نہ ہی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام  ہو اور اپنا نفع اس سے بالکل جدا کرلیا جائے۔(تنویر الابصارمع در مختار ، ج 03،ص 206-203،مطبوعہ کوئٹہ)

   زکوۃ صرف مسلمان فقراء ہی کو دی جائے گی۔ جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیثِ مبارک میں ہے:”عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم بعث معاذا إلى اليمن فقال له إنك تأتي قوما أهل كتاب ۔۔۔۔ فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهمیعنی حضرتِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طر ف بھیجاتو فرمایا کہ تم اہل کتاب میں سے ایک قوم کے پاس جا رہے ہو ۔۔۔ تم انہیں یہ بات بتا دینا  کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں میں زکوۃ فرض کی ہے،  یہ زکوۃ ان کے  مال داروں سے لے کر ان کے فقراء کو دی جا ئے گی۔ (الجامع الصحيح سنن الترمذي،کتاب الزکاۃ ، حدیث625،ج03،ص12، مطبعۃ المصطفی البابی، ملتقطاً)

   مذکورہ بالا حدیثِ مبارک کے تحت علامہ ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:وأن الزكاة لا تدفع إلى الكافر لعود الضمير في فقرائهم إلى المسلمين۔یعنی کافروں کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی کیونکہ "فقرائهم"میں"هم" کی ضمیر مسلمانوں کی طرف لوٹ رہی ہے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری، کتاب الزکاۃ، ج 03، ص 360، دار المعرفۃ، بیروت)

   غیر مسلم کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:لا یجوز صرف الزکاة الی الکافر بلا خلاف لحدیث معاذ رضي اللہ عنہ: خذ من أغنیائہم وردہا الی فقرائہم أمر بوضع الزكاة في فقراء من يؤخذ من أغنيائهم وهم المسلمون فلا يجوز وضعها في غيرهم ۔یعنی بغیر کسی اختلاف کے  کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں،حضرتِ معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے کہ یہ مال تم مسلمانوں کے اغنیاء سے لو اور مسلمانوں کے فقراء کو لوٹادو، پس یہاں مسلمان اغنیاء سے وصول ہونے والی زکوٰۃ کو انہی کے فقراء میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا اور وہ مسلمان ہیں پس مسلمانوں کے علاوہ  کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔(بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ، ج 02، ص 49، دار الکتب العلمیة، بیروت)

   فتاوٰی عالمگیری، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:والنظم للاول“وأما أهل الذمة فلا يجوز صرف الزكاة إليهم بالاتفاق۔۔۔۔۔ أما الحربي المستأمن فلا یجوز دفع الزکوٰۃ والصدقۃ الواجبۃ إلیہ بالإجماع ۔ “یعنی ذمی کافر کو زکوٰۃ دینا بالاتفاق جائز نہیں  ۔۔۔۔۔۔رہی بات حربی اور مستامن کافر کی تو انہیں بالاجماع زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 188، مطبوعہ پشاور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے: ” زکاۃ شریعت میں اﷲ (عزوجل) کے لیے مال کے ایک حصہ کا جو شرع نے مقرر کیا ہے، مسلمان فقیر کو مالک کر دینا ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو، نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام اور اپنا نفع اُس سے بالکل جدا کر لے۔“ (بہار شریعت ، ج 01، ص 874، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مزید کچھ صفحات آگے صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں:”ذمی کافر کو نہ زکاۃ دے سکتے ہیں، نہ کوئی صدقہ واجبہ جیسے نذر و کفارہ و صدقہ فطر اور حربی کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں نہ واجبہ نہ نفل، اگرچہ وہ دارالاسلام میں بادشاہِ اسلام سے امان لے کر آیا ہو۔ہندوستان اگرچہ دارالاسلام ہے مگریہاں کے کفّار ذمّی نہیں، انھیں صدقات نفل مثلاً ہدیہ وغیرہ دینا بھی ناجائز ہے۔ “(بہار شریعت،ج01،ص931، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم