Kya Syed Par Bhi Zakat Farz Hai?

کیا سید پر بھی زکوٰۃ فرض ہے ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12803

تاریخ اجراء:28رمضان المبارک1444ھ/19اپریل2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا سید پر بھی زکوٰۃ فرض ہے ؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن و حدیث کی واضح نصوص  کے مطابق ہر عاقل و بالغ، آزاد، مسلمان، صاحبِ نصاب پر شرائطِ زکوٰۃ پائی جانے کی صورت میں اپنے مال کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے۔ بلاشبہ اس حکمِ قرآنی میں سید بھی داخل ہے کیونکہ سید بھی شرعی احکام کا مکلف ہے۔  جس طرح  سید پر  نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات فرض ہوتی ہیں ، اسی طرح مالکِ نصاب سید پر  شرائطِ زکوٰۃ پائے جانے کی صورت میں اپنے مال کی  زکوٰۃ نکالنا بھی فرض ہے۔ معاذ اللہ! اگر کوئی سید فرض ہونے کے باوجود اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کرے  یا بلا وجہ شرعی زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو شرعاً وہ بھی قابلِ گرفت ہوگا۔

    البتہ یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ سید اور بنو ہاشم  زکوٰۃ لینا حرامِ قطعی ہے جس کی حرمت پر اجماع قائم ہے، لہذا مالکِ نصاب سید یا ہاشمی  بھی اپنی زکوٰۃ کسی دوسرے سید یا ہاشمی کو نہیں دے سکتے۔

   زکوٰۃ کی فرضیت سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ“ترجمہ کنزالایمان: ”اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو ۔“(پارہ 01،سورۃ البقرۃ،آیت نمبر 43)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارک کی تفسیر میں صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:” اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے۔(تفسیر خزائن العرفان، ص 17، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ترمذی شریف  کی حدیثِ مبارک ہے:”عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم بعث معاذا إلى اليمن فقال له إنك تأتي قوما أهل كتاب فادعهم إلى شهادة أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، فإن هم أطاعوا لذلك  ۔۔۔۔فأعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة في أموالهم تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم“یعنی حضرتِ سیدنا ابن عباس   رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طر ف بھیجاتو ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو۔ تم انہیں اس طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگر وہ اس معاملے میں اطاعت کریں تو  تم انہیں یہ بات بتانا  کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے۔  جو ان کے مال داروں سے لے کر ان کے فقراء کو دی جا ئے گی۔ (سنن الترمذي،کتاب الزکاۃ ، حدیث625،ج03،ص12، دار إحياء التراث العربي، بيروت، ملتقطاً)

   وجوبِ زکوٰۃ کی شرائط سے متعلق کنز الدقائق اور دیگر کتبِ فقہیہ میں مذکور  ہے:”و شرط وجوبھا العقل و البلوغ و الاسلام و الحریۃ و ملک النصاب حولی فارغ عن الدین و حاجتہ الاصلیۃ نام ولو تقدیراً۔“ترجمہ:”زکوٰۃ واجب ہونے کی شرائط یہ ہیں: عاقل ہونا، بالغ ہونا، مسلمان ہونا، آزاد ہونا، ایک سال تک ایسے نصاب کا مالک ہونا جو قرض اور حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو اور مال کا نامی ہونا اگرچہ نمو تقدیراً ہو۔ “(کنز الدقائق، کتاب الزکاۃ ،ص203،مطبوعہ دار السراج )

   سید مالکِ نصاب پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ جیسا کہ  مفتی عبد المنان اعظمی  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”سید کو مالکِ نصاب ہونے پر زکوٰۃ دینا ہوگا؟“اس کے جواب میں ہے:”سیدکےپاس اگرنصاب کے برابرمال ہوتو اسکو اپنے مال کی زکوٰۃ دینی پڑے گی۔(فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 02، ص 143، شبیر برادرز ، لاہور)

   مالکِ نصاب سید یا ہاشمی اپنی زکوٰۃ دوسرے سید یا ہاشمی کو نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:” (و) لا إلى (بني هاشم) ۔۔۔۔۔۔ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع “یعنی بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں پھر ظاہر مذہب یہی ہے کہ یہ مطلقاً منع ہے ۔

    (إطلاق المنع) کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:”يعني سواء في ذلك كل الأزمان وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم۔“ترجمہ:”یعنی یہ حکم تمام زمانوں کے لیے برابر ہے، اب خواہ صاحبِ نصاب ہاشمی  اپنی زکوٰۃ کسی دوسرے ہاشمی کو دے یا ان کے خاندان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد اپنی زکوٰۃ انہیں دے (بہر صورت ان کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔) “(ردالمحتارمع الدرالمختار، کتاب الزکاۃ، ج03،ص350،مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:’’زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے جس کی حرمت پر ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ ائمہ مذ اہبِ اربعہ رضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔“ (فتاوٰی رضویہ،ج10،ص99،رضافاؤنڈیشن، لاہور)

   سیدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”بیشک زکوٰۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں قریبوں کو دینا افضل اور دو چنداجرکاباعث ہے۔۔۔ ۔مگر  یہ اسی صورت میں ہے کہ وُہ صدقہ اس کے قریبوں کو جائز ہو، زکوٰۃ کے لیے شریعتِ مطہرہ نے مصارف معین فرمادئیے ہیں اور جن جن کو دینا جائزہے صاف بتادئیے۔  اس کے رشتہ داروں میں وُہ لوگ جنھیں دینے سے ممانعت ہے ہرگز استحقاق نہیں رکھتے ، نہ اُن کے دئیے زکوٰۃ ادا ہو جیسے اپنے غنی بھائی یا فقیر بیٹے کو دینا، یونہی اپنا قریب ہاشمی کہ شریعت مطہرہ نے بنی ہاشم کو صراحۃً مستثنیٰ فرمالیا ہے اور بیشک نصوص مطلق ہیں ۔(فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص 288-287، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم