Maqrooz Ko Qarz Maaf Karne Se Zakat Ada Ho Jaye Gi?

مقروض کو قرض معاف کرنے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Jtl-0907

تاریخ اجراء:14رمضان المبارک1444ھ/05اپریل 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید  نے عَمرو کو بطور قرض 2 لاکھ دئیے ہوئے ہیں، لیکن وہ اسے ادا کرنے سے قاصر ہے ، اور عَمرو شرعی فقیر  بھی ہے ، سید یا ہاشمی بھی نہیں  تو  زید اگر اسے اپنا  قرض معاف کر دے تو زید کی زکوۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زید نے عَمرو کو اپنا قرض معاف کر دیا ،تو قرض کی معافی تو درست ہو جائے گی،  مگر اس سے زید  کے دیگر اموال کی  زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔ کیونکہ   دَین کی معافی  ایک اعتبار سے اسقاط (اپنا حق ساقط کرنا) ہےاور ایک اعتبار سے  تملیک ہے۔ جبکہ زکوۃ کی ادائیگی میں کامل و مطلق طور پر  تملیک فقیر  (یعنی فقیر کو مالک بنانا) شرط ہے۔

   البتہ  زید  اگر چاہتا ہے کہ زکوۃ بھی ادا ہو جائے اور عمرو کا قرض بھی معاف ہو جائے اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہے ،تو درست طریقہ یہ ہے کہ اپنے پاس سے زکوۃ ادا کرنے کی نیت سے اسے رقم  دے دے ،پھر اپنے قرض  میں ا س سے  واپس لے لے ۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے : رجل له على فقير مال واراد ان يتصدق بماله على غريمه ويحتسب به عن زكاة ماله فقد عرف من اصل اصحابنا رحمهم اللہ تعالى انه لا يتادى بالدين زكاة العين ترجمہ :کسی شخص کا مال فقیر کے ذمہ ہے اور وہ شخص اپنا مال اس قرض دار فقیر پر صدقہ کرنا چاہتا ہے اور اسے اپنے مال کی زکوۃ کے طور پرشمار کر نا چاہتا ہے ، ہمارے اصحاب رحھم اللہ تعالی کے اصول سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہ عین کی زکاۃ دین کے ساتھ ادا نہیں کر سکتا ۔(فتاوی عالمگیری ، کتاب الحیل ، الفصل الثالث ، ج6، ص 391 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   بدائع الصنائع میں ہے:’’ أمر اللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکاۃ لقولہ عزو جل:﴿ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ﴾ والإیتاء ھو التملیک ولذا سمی اللہ تعالی الزکاۃ صدقۃ بقولہ عز وجل:﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ﴾ والتصدق تملیک‘‘ترجمہ: اللہ عزوجل نے مال والوں کو’’ایتاء زکوۃ‘‘( یعنی زکوۃ دینے) کا حکم دیا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتا ہے:’’اور زکوۃ دو ۔‘‘ اورایتاء یعنی دینے کا مطلب تملیک اور مالک کر دینا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ عزوجل نے زکوۃ کو صدقہ کہا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:’’صدقات فقراء کے لیے ہیں۔‘‘ اورتصدق( صدقہ کرنا) تملیک کو کہتے ہیں۔(بدائع، کتاب الزکوۃ ، فصل رکن الزکوۃ ، جلد2،صفحہ39، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

   فقہاء فرماتے ہیں کہ زکوۃ نام ہی کسی غیر ہاشمی مسلمان فقیر کو مال کا مالک بنا دینے کا ہے۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے :’’أما تفسیرھا فھی تملیک المال من فقیر مسلم غیر ھاشمی‘‘ترجمہ: زکوۃ کا معنی یہ ہے کہ مسلمان غیر ہاشمی فقیر کو مال کامالک بنا دیا جائے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الزکوۃ ، الباب الاول ، جلد1،صفحہ170، دار الفکر ، بیروت)

   مذکور ہ مسئلے کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ برہان الدين محمود بن احمدالبخاری الحنفی "المحیط البرہانی"میں فرماتے ہیں:’’لأن النصاب إذا كان عينًا، فالواجب تمليك جزء منه من كل وجه، وهبة الدين لمن عليه تمليك من وجه، إسقاط من وجه، ولهذا يصح من غير قبول وإنما يصح من حيث أنه إسقاط، والتمليك من وجه دون التمليك من كل وجه، والشيء لا يتأدى بما دونه‘‘ترجمہ:کیونکہ نصاب جب عین ہو تو زکوۃ کی ادائیگی کے لیے اس کے جز کی ہر اعتبار سے تملیک واجب ہے۔جبکہ قرض معاف کرنا ایک اعتبار سے اسقاط اور ایک اعتبار سے تملیک ہے،اسی وجہ سے قبول کیے بغیر بھی درست ہوجاتا ہے۔اور  تملیک من وجہ (ایک اعتبار سے تملیک) کا درجہ  تملیک من کل وجہ(ہر اعتبار سے تملیک )کے درجے سے کم ہے۔اور شے اپنے سے کم درجہ سے ادا نہیں ہوتی۔(المحیط البرھانی،جلد2،صفحہ278،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:وحيلة الجواز ان يعطي مديونه الفقير زكاته ثم ياخذها عن دينه ترجمہ :اس کے جواز کا حیلہ یہ ہے کہ وہ اس قرض دار فقیر کو اپنی زکوۃ کی رقم دے، پھر اسی رقم کو اپنے قرض کے طور پر واپس لے لے ۔ (در مختار مع رد المحتار ، کتاب الزکاۃ ، ج3 ، ص 226 ،مطبوعہ  کوئٹہ )

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتےہیں :فقیر پر قرض ہے،اس قرض کو اپنے مال کی زکاۃ میں دینا چاہتا ہے یعنی یہ چاہتا ہے کہ معاف کر دے اور وہ میرے مال کی زکاۃ ہو جائے، یہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ  ہوسکتا ہے کہ اُسے زکاۃ کا مال دے اور اپنے آتے ہوئے میں لے لے، اگر وہ دینے سے انکار کرے،تو ہاتھ پکڑ کرچھین سکتا ہے۔( بھار شریعت ، ج1 ، ص 890 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم