مقروض پر زکوٰۃ کا حکم |
مجیب:مولانا حسان صاحب زید مجدہ |
مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Kan-14461 |
تاریخ اجراء:01صفر المظفر1441ھ/01اکتوبر2019ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے بینک سے مکان یا فلیٹ کی خریداری کے لیے رقم ادھار لی ہے اور ہر ماہ ایک مخصوص رقم قرض کی ادائیگی کی مد میں ادا کرتا ہے ، اب اگر اس شخص کے پاس نصاب یا نصاب سے زیادہ رقم ہے ، لیکن جو قرضہ اس نے لیا ہے، وہ اس نصاب سے کئی گنا زیادہ ہے جو کئی سالوں میں ادا ہوگا ، تو کیا ہر سال اس شخص کے اوپر زکوٰۃ لازم ہوگی ؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
قرض کی جتنی اقساط باقی ہیں ان کو مالِ نصاب سے منہا کیا جائے گا ، اب اگر یہ رقم اتنی ہےکہ جس کی وجہ سے مال ہی باقی نہیں رہتا ، یا نصاب کی مقدار مال باقی نہیں رہتا،تو اس شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی اور اگر نصاب کی مقدار مال باقی رہتا ہے ، تو دیگر شرائط کے ساتھ اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ یہ یاد رہے کہ سودی قرض لینا حرام ہے اور وہ رقم جو سود کی مد میں دی جائے گی (نعوذ باللہ ) وہ قرض میں شامل نہیں اور وہ رقم نصاب سے منہا بھی نہیں ہوگی ۔ اس قرض کی رقم کو زکوٰۃ کے نصاب سے منہا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرض میعادی نہیں ہوتا ، مقروض سے ہمہ وقت اس کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یعنی قرض خواہ جب چاہے مقروض سے اپنا قرض طلب کرسکتا ہے اور مقروض اسے دینے سے انکار نہیں کرسکتا ، اگرچہ پہلے اس کی میعاد مقرر کردی ہو اور یہاں اصول یہی ہے کہ وہ دَین جس کا کوئی مطالِب بندوں کی طرف سے ہو چاہے مطالبہ فی الفور ہو یا تاخیر سے وہ مانع زکوٰۃ ہوتا ہے اور اتنا مال اس کے حوائج اصلیہ میں مشغول شمار ہوکر کالعدم قرار پاتا ہے۔ در مختار میں ہے :’’القرض فلا يلزم تأجيله‘‘یعنی قرض کی مدت لازم قرار نہیں پاتی۔ خاتم المحققین علامہ سید ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالی اس کے تحت فرماتے ہیں :’’أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه‘‘یعنی قرض کی مدت مقرر کرنا اگرچہ صحیح ہے ،لیکن یہ مدت لازم نہیں ہوتی مُقرِض اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 7، صفحہ 402، مطبوعہ کوئٹہ) اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’اور یاد رکھنا چاہیے کہ قرض جسے لوگ دست گرداں کہتے ہیں شرعا ہمیشہ معجل ہوتا ہے، اگر ہزار عہد وپیمان ووثیقہ وتمسک کے ذریعہ اس میں میعاد قرار پائی ہو کہ اتنی مدت کے بعد دیا جائے گا ،اس سے پہلے اختیارِ مطالبہ نہ ہوگا، اگر مطالبہ کرے تو باطل ونامسموع ہو وغیرہ وغیرہ ہزار شرطیں اس قسم کی کرلی ہوں ،تو وہ سب باطل ہیں ، اور قرض دہندہ کو ہر وقت اختیارِ مطالبہ ہے۔‘‘ منہیۂ فتاوی رضویہ،جلد 10،صفحہ 247،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) امام ملک العلماء ابو بکر کاسانی رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں:’’ومنها أن لا يكون عليه دين مطالب به من جهة العباد عندنا فإن كان فإنه يمنع وجوب الزكاة بقدره حالا كان أو مؤجلا‘‘ہمارے نزدیک زکوٰۃ کے واجب ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ اس پر ایسا دین نہ ہو جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہو، اگر ایسا دین ہو چاہے دین فی الحال دینا ہو یا بدیر وہ زکوٰۃ کے وجوب سے مانع ہوگا۔ (البدائع الصنائع ،جلد 2 ،صفحہ 6، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) امام برھان الدین محمود مازہ رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :’’كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة،سواء كان الدين للعباد،أولله تعالى كدين الزكاة ‘‘ہر وہ دین جس کا بندوں کی طرف سے کوئی مطالبہ کرنے والا ہو زکوٰۃ کے وجوب سے مانع ہوتا ہے، چاہے دین بندوں کا ہو یا اللہ تعالی کا جیسے (گزشتہ سالوں کی) زکوٰۃ کا دین ۔ مزید فرماتے ہیں :’’إنمامنع وجوب الزكاة،لأن ملك المديون في القدرالمشغول بالدين ناقص‘‘یہ دین زکوٰۃ کے وجوب سے مانع اس لیے ہوتا ہے کہ مدیون کی ملک دین میں مشغول مال میں ناقص ہوتی ہے۔ (المحیط البرھانی ،جلد 2، صفحہ 510، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی) دین کے مال زکوٰۃ سے منہا ہونے کے حوالے سے فتاوی رضویہ میں ہے :’’دین ِعبد( یعنی بندوں میں جس کا کوئی مطالبہ کرنے والا ہو اگرچہ دین حقیقتاً اللہ عزوجل کا ہو جیسے دینِ زکوٰۃ جس کا حق ِ مطالبہ بادشاہِ اسلام اعز اللہ نصرہ کو ہے) ، انسان کے حوائج اصلیہ سے ایسا دین جس قدر ہوگا اتنا مال مشغول بحاجت اصلیہ قرار دے کر کالعدم ٹھہرے گا اور باقی پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگر بقدرِ نصاب ہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 126، رضا فاؤنڈیشن،لاھور) صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا امجد علی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’نصاب کا مالک مگر اس پر دین ہے کہ ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتی تو زکوٰۃ واجب نہیں ، خواہ وہ دین بندے کا ہو جیسے قرض ، زر ثمن، کسی چیز کا تاوان، یا اللہ عزوجل کا دین ہو ، جیسے زکوٰۃ ، خراج۔‘‘ (بہار شریعت، حصہ 7، صفحہ 878، مکتبۃ المدینہ کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟