Mustahiq Samajh Kar Zakat Di Baad Mein Pata Chala Ke Wo Syed Hai To?

مستحق سمجھ کر زکوۃ دی، بعد میں پتہ چلا کہ وہ سید ہے تو ؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13313

تاریخ اجراء: 14رمضان المبارک1445 ھ/25مارچ 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید نے ایک شخص کو زکوٰۃ کی نیت سے کچھ رقم دی، جبکہ زید کو اُس شخص کے معاشی حالات کی بنا پر اس بات کا ظنِ غالب تھا کہ یہ شخص مستحقِ زکوٰۃ ہے، لیکن اب کسی ذریعے سے زید کو اس بات کا علم ہوا ہے کہ وہ شخص تو سید ہے۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس صورت میں زید کی  زکوٰۃ ادا ہوگئی ؟ اگرادا  نہیں ہوئی تو واپسی کی کیا صورت ہوگی؟  کیونکہ  وہ شخص تو اُس رقم کو خرچ بھی کرچکا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق کسی کی ظاہری حالت دیکھ کر اُسے مستحقِ زکوۃ سمجھ کر زکوۃ دی جائے، توزکوۃ ادا ہوجائے گی اگرچہ غیر مصرف میں یہ زکوۃ دی ہو، لہذا پوچھی گئی صورت میں زیدکی زکوۃ ادا ہو گئی اُس پر دوبارہ زکوۃ ادا کرنا کوئی ضروری نہیں۔

   مستحق  زکوۃ سمجھ کر زکوۃ دی اور وہ ہاشمی نکلا تو دوبارہ زکوۃ ادا کرنا ضروری نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ  میں ہے:”إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع ، وكذا إن لم يظهر حاله عنده ، وأما إذا ظهر أنه غني أو هاشمي أو كافر أو مولى الهاشمي أو الوالدان أو المولودون أو الزوج أو الزوجة فإنه يجوز وتسقط عنه الزكاة في قول أبي حنيفة ومحمد  رحمهما الله تعالیٰ۔“یعنی جب کسی شخص کو شک ہو اور وہ تحری یعنی سوچ بچار کرے یہاں تک کہ اُسے غالب گمان حاصل ہوجائے کہ یہ شخص زکوۃ  کا محل ہے پھر  اسے زکوۃ  دی یا پھر  اُس سے سوال کیا اور اس نے زکوۃ دے دی یا پھر اُسے فقیروں کی صف میں کھڑا دیکھ کر  زکوٰۃ دے دی، اس کے بعد معلوم ہوا  کہ وہ زکوۃ  کا محل تھا تو بالاجماع زکوۃ ادا ہوگئی، اسی طرح اگر اُس کا کوئی حال ظاہر نہ ہو تب بھی زکوۃ ادا ہوگئی۔ بہر حال جب بعد میں یہ بات ظاہر ہو کہ یہ شخص تو غنی یا ہاشمی یا کافر یا ہاشمی کا غلام یا والدین یا اولاد یا میاں بیوی میں سے تھا  تو یہ بھی جائز ہے ،  اس صورت میں امام اعظم اور امام محمد علیہما الرحمہ کے نزدیک اِس شخص پر سے زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔(الفتاوٰی الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، ج 01، ص 190، مطبوعہ پشاور)

   تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے:”(دفع بتحر )لمن یظنہ مصرفاً۔۔۔ ۔۔(وان بان غناہ او کونہ ذمیا او انہ ابوہ او ابنہ او امراتہ او ھاشمی ، لا) یعید لانہ اتی بما فی وسعہ حتی لو دفع بلا تحر لم یجز ان اخطا۔“ یعنی  کسی کو مصرف سمجھ کر تحری کر کے زکوۃ دی ۔۔۔۔ پھر  (بعد میں)اس کا غنی یا ذمی کافر ہونا ، یا اس کا باپ یا بیٹا یا بیوی یا ہاشمی ہونا ظاہر ہوا تو دوبارہ زکوۃ دینا ضروری نہیں، کیونکہ جو اس کی قدرت میں تھا وہ کر چکا یہاں تک کہ اگر اس نے بغیر تحری زکوۃ دی تو خطاء ظاہر ہونے کی صورت میں زکوۃ ادا نہ ہوئی ۔(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الزکاۃ ، ج03، ص354-353، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   بہار شریعت میں ہے:”جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکاۃ دے سکتے ہیں اورزکاۃ دے دی بعد میں ظاہر ہوا کہ وہ مصرف زکاۃ ہے یا کچھ حال نہ کُھلا تو ادا ہوگئی اور اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غنی تھا یا اُس کے والدین میں کوئی تھا یا اپنی اولاد تھی یا شوہر تھا یا زوجہ تھی یا ہاشمی یا ہاشمی کا غلام تھا یا ذمّی تھا، جب بھی ادا ہوگئی ۔(بہار شریعت ، ج01، ص932، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم