Nabaligh Ya Pagal Ko Zakat Dene Ka Hukum

نابالغ یا پاگل کو زکوۃ دینے کا حکم

مجیب:مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2612

تاریخ اجراء: 19رمضان المبارک1445 ھ/30مارچ2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرا سوال یہ ہے کہ نابالغ یا بالغ پاگل کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟    

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نابالغ جو سمجھدار ہو اور قبضہ کرنا جانتا ہو،اسے ڈائریکٹ زکوۃ دے سکتے ہیں(یعنی خوداسی کوزکوۃ کی رقم پکڑاسکتے ہیں) جبکہ وہ خود اور اس کا باپ  مستحقِ زکوۃ ہوں (یعنی شرعی فقیرہوں اور  سید یا ہاشمی نہ ہوں) ۔البتہ جو نابالغ ناسمجھ ہے،قبضہ کرنا نہیں جانتا ،اسے اور پاگل کوڈائریکٹ زکوۃ نہیں دے سکتے(یعنی اس کوزکاۃ کی رقم نہیں  پکڑاسکتے)کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مستحقِ زکوٰۃ کو مالک بناناضروری ہے اور مالک کرنے میں یہ ضروری ہےکہ ایسے شخص کو دے جو قبضہ کرنا جانتا ہو اور ناسمجھ بچہ و پاگل چونکہ قبضہ کرنا نہیں جانتے ،لہذا انہیں زکوۃ نہیں دے سکتے ،اور اگر انہی کو دینی ہو تو پھر خود ان کے قبضے میں نہ دیں بلکہ ان کی طرف سے ان کا باپ (جبکہ شرعی فقیر ہو)یا وصی یا جس کی نگرانی میں یہ ہوں،وہ قبضہ کریں ،تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔

    فتاوی ہندیہ میں ہے” لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا ۔۔۔فاضلا عن حاجته۔۔۔ ولا يجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير“ترجمہ:جو شخص اپنی حاجت سے زائد نصاب کا مالک ہو،اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں، یونہی غنی کے نابالغ بچے کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔(فتاوی ھندیۃ،ج 1،ص 189،دار الفکر،بیروت)

    رد المحتار میں ہے” وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط“ترجمہ:مالک بنانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاگل و غیرِ مراہق بچے کو زکوۃ نہیں دی جا سکتی ،ہاں اگر ان کی طرف سے زکوۃ پر وہ قبضہ کرے،جس کے لئے قبضہ کرنا جائز ہے جیسا کہ باپ،وصی وغیرہ تو جائز ہے،یونہی مراہق بچہ جو قبضہ کرنا جانتا ہو،اسے بھی زکوۃ دی جا سکتی ہے،جیسا کہ محیط میں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 344،دار الفکر،بیروت)

    بہار شریعت میں ہے” مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو دے جو قبضہ کرنا جانتا ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ پھینک دے یا دھوکہ کھائے ورنہ ادا نہ ہوگی، مثلاً نہایت چھوٹے بچہ یا پاگل کو دینااور اگر بچہ کو اتنی عقل نہ ہو تو اُس کی طرف سے اس کا باپ جو فقیر ہو یا وصی یا جس کی نگرانی میں ہے قبضہ کریں۔“( بہار شریعت،ج01،حصہ 05،ص875 ، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم