Razai Maa Baap Ko Zakat Dene Ka Hukum?

رضاعی ماں ،باپ کو زکوۃ دینے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8219

تاریخ اجراء:15رجب المرجب1444ھ/07  فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ رضاعی ماں ، باپ  کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے  اور اگر کسی نے دے دی ، تو کیا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   رضاعی ماں، باپ اگر مستحقِ زکوٰۃ یعنی شرعی فقیر ہوں اور ہاشمی نہ ہوں ، تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔

   مسئلہ کی تفصیل:اپنے اُصول و فروع کو زکوٰۃ دینے کی ممانعت کے متعلق اُصول یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو ولادت کی وجہ سے زکوٰۃ دینے والے کی طرف منسوب ہو یا زکوٰۃ لینے والا ولادت کی وجہ سے اس کی طرف منسوب ہو،تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں،جیساکہ حقیقی ماں،باپ؛دادا،دادی ؛نانا،نانی اور حقیقی بیٹا ،بیٹی ؛پوتا ،پوتی؛نواسا،نواسی وغیرہم۔ ان کے علاوہ رشتے داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے،جبکہ ممانعت کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو۔اس تفصیل کی روشنی میں رضاعی والدین سے ولادت کے اعتبار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،بلکہ ان سے صرف دودھ کا رشتہ ہوتا ہے اور فقہائے کرام فرماتے ہیں:رضاعت صرف حرمت کےمعاملے میں مؤثر ہوتی ہے ، اس کے علاوہ بقیہ احکام میں رضاعی اولاد اور رضاعی ماں،باپ باہم اجنبی کی طرح ہوتے ہیں،اسی وجہ سے رضاعی والدین کی گواہی،رضاعی اولاد کے حق میں مقبول ہے،رضاعی اولاد وراثت سے حصہ نہیں پاتی،یونہی ان كا نفقہ بھی لازم نہیں ہوتا،لہٰذا جب رضاعی ماں باپ مستحقِ زکوٰۃ ہوں،تو بیان کردہ دونوں اُصولوں کی روشنی میں ان کو زکوٰۃ دینا بلاشبہ جائز ہے۔

   اُصول وفروع میں سے کسی کو زکوٰۃ دینے کے متعلق اُصول بیان کرتے ہوئےامام کمال الدین ابنِ ہمام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:861ھ/1456ء) لکھتےہیں:(ولا يدفع المزكي زكاته إلى أبيه وجده وإن علا) الأصل أن كل من انتسب إلى المزكي بالولاد أو انتسب هو له به لا يجوز صرفها لهترجمہ :اور زکوٰۃ دینے والا اپنے والد ، دادا کو ، اگرچہ اوپر تک کوئی بھی ہو ، اسے اپنی زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ اس سلسلہ میں قاعدہ ضابطہ یہ ہےکہ ہر وہ شخص جو ولادت کی وجہ سے زکوٰۃ دینے والے کی طرف منسوب ہو یا زکوٰۃ لینے والا ولادت کی وجہ سے اس دینے والے کی طرف منسوب ہو ، تو اسے زکوٰۃ دینا جائز نہیں ۔ (فتح القدیر، كتاب الزكاة ، باب من يجوز دفع الزكاة اليه  ومن لايجوز، جلد2، صفحہ209، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی طرح دُرَرُ الحکام اور درمختار مع رد المحتار  میں ہے،واللفظ للآخر : (ولاإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه،لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال  والولاد بالكسر مصدر …أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل،ملتقطا ترجمہ : اور نہ ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کہ جن میں دینے والے  اور لینے والے کے درمیان رشتۂ  ولادت کا تعلق  ہو ، کیونکہ ان کی مملوکہ اَشیاء کے مَنافِع ان کے درمیان متصل ہوتے ہیں، لہٰذا زکوٰۃ لینے والے کو مکمل طور پر مالک بنانا ثابت نہیں ہوگا اوروِلاد  واؤ کی کسرہ کے ساتھ مصدر ہے  ، اس سے مراد زکوٰۃ دینے والے کے اُصول ہیں ، اگرچہ اوپر تک ہوں ،یعنی  ماں ، باپ ، دادا، دادی ، نانا ، نانی وغیرہم  اور زکوٰۃ دینے والے کے فروع  ہیں ، اگرچہ نیچے تک ہوں ، (یعنی بیٹے ، بیٹیاں ، پوتے ،پوتیاں وغیرہم )۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکوۃ، باب المصرف، جلد3، صفحہ 344، مطبوعہ کوئٹہ) 

   رضاعت صرف حرمت کے معاملہ میں مؤثر ہوتی ہے ، بقیہ احکام میں رضاعی والدین اور رضاعی اولاد باہم اجنبی ہوتے ہیں ، چنانچہ اس اُصول کی روشنی میں بعض معاملات کے متعلق حکم بیان کرتے ہوئے شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء)لکھتےہیں: ويجوز شهادة الرجل لوالده من الرضاعة ووالدته،لان الرضاع تأثيره في الحرمة خاصة، وفيما وراء ذلك كل واحد منهما من صاحبه كالأجنبي(ألا ترى) أنه لا يتعلق به استحقاق الارث واستحقاق النفقة حالة اليسار والعسرة، وبه يفرق بين الاخوة والولاد ترجمہ:آدمی کی اپنے رضاعی والداور والدہ کے حق میں گواہی جائز ودرست ہے ، کیونکہ رضاعت بطورِ خاص حرمت میں مؤثر ہوتی ہے اور اس کے علاوہ بقیہ تمام احکام میں رضاعی اولاد اور والدین اجنبی کی طرح ہوتے ہیں ، کیا تُو دیکھتا نہیں  کہ رضاعت کی وجہ سے حقِ وراثت  اور تنگی و آسانی دونوں حالتوں میں نفقہ ثابت نہیں ہوتا، اسی سے اخوۃ  اور وِلاد    میں فرق ہوجاتا ہے (کہ اخوۃ یعنی بہن، بھائیوں کو زکوٰۃ دینا جائز ، جب کہ وِلادیعنی اپنے حقیقی اصول وفروع  کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے)۔  (المبسوط للسرخسی ،كتاب الشهادات ،جلد 16، صفحہ125،مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت )

   یونہی علامہ ابو المَعَالی  بُخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) نے لکھا:(المحیط البرھانی، كتاب الشهادات ،جلد 8، صفحہ  324، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

   تنبیہ:شریعتِ مطہرہ حقیقی ماں ،باپ کے ادب و احترام کے ساتھ ساتھ رضاعی ماں ، باپ کا بھی اِکرام سکھاتی ہے ،نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے لیے خود اپنا کپڑا مبارک بچھایااور اس پر بٹھا کر ان کا اِکرام فرمایا، اسی طرح اپنی رضاعی بہن حضرت شَیْمَاء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اور رضاعی بھائی کو اعزاز و اکرام سے نوازا ، یونہی حضرت ثویبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا جو حضور علیہ السلام کی رضاعی والدہ ہیں،ان کو کپڑے بھیج کر ان کا اکرام فرمایا کرتے تھے،لہٰذا اگر رضاعی والدین کو مالی حاجت ہو اور رضاعی اولاد  میں مالی وسعت ہو ، تو ان کی خدمت کرکے ثوابِ آخرت حاصل کرنا چاہیے اور اگر اتنی طاقت نہ بھی ہو، تو زکوٰۃ میں بھی پہلے قریبی افراد  کو دینے کا حکم ہے ، لہٰذا اس لحاظ سے بھی ان کو ترجیح دینی چاہیے۔

   چنانچہ سنن ابو داؤد میں ہے:أن أبا الطفيل  قال: رأيت النبي صلى اللہ  عليه وسلم يقسم لحما بالجعرانة، قال أبو الطفيل: وأنا يومئذ غلام أحمل عظم الجزور، إذ أقبلت امرأة حتى دنت إلى النبي صلى اللہ  عليه وسلم، فبسط لها رداءه، فجلست عليه، فقلت: من هي؟ فقالوا: هذه أمه التي ‌أرضعته ترجمہ : حضرت ابو طفیل رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے  جعرانہ کے مقام پر نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوگوشت تقسیم فرماتے ہوئے دیکھا، میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھا اور گوشت کا بڑا ٹکڑا اٹھائے ہوئے تھا کہ اچانک ایک بی بی صاحبہ آئیں ،حتی کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہو گئیں ، آپ علیہ السلام نے ان کے لیے اپنی مبارک چادر بچھادی ،تو وہ اس پر بیٹھ گئیں ،(پھر جب وہ چلی گئیں ) میں نے کہا کہ یہ کون ہیں ؟تو صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے بتایاکہ یہ نبی پاک کی (رضاعی )والدہ ہیں ، انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دودھ پلایا ہے۔(سنن ابی داؤد، کتاب الادب ،باب فی بر الوالدین ،جلد 2، صفحہ 329، مطبوعہ لاھور )

   مذکورہ بالا حدیث پاک کے تحت رضاعی والدہ کے اکرام کی ترغیب دلاتے ہوئے مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دونوں عمل اظہارِ احترام و اظہار مسرت کے لیے تھے……اس میں ہم لوگوں کو تعلیم ہے کہ جب دودھ پلانے والی دائی کا یہ ادب و احترام ہے، تو سگی ماں کا ادب و احترام کیسا چاہیے۔‘‘

   مزید لکھتے ہیں:یہ واقعہ خاص جنگ حنین کے دن کا ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اس جنگ سے فارغ ہوئے تھے ،جماعتِ صحابہ میں تشریف فرما تھے کہ بی بی حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا تشریف لائیں،حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے لیے کھڑے ہوگئے اور جو چادر شریف اوڑھے ہوئے تھے ان کے لیے بچھادی، جب تک آپ تشریف فرما رہیں، کسی اور سے کلام نہ فرمایا، ان ہی کی طرف متوجہ رہے۔ جب آپ واپس ہوئیں تو بہت ہدایا ،تحفے عطا فرمائے اور انہیں کچھ دور مشایعت کے طور پر پہنچانے تشریف لے گئے ،پھر خود حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یا کسی اور صحابی نے حاضرین سے فرمایا کہ یہ حضور کی دائی جناب حلیمہ ہیں ،جنہوں نے حضور کو دودھ پلایا ہے،یہ پورا واقعہ مواہب اللدنیہ میں مطالعہ فرمایئے،کچھ مرقات نے بھی یہاں ہی بیان فرمایا، آج کے نوجوان یہ حدیثیں پڑھیں اور عبرت حاصل کریں کہ ہم لوگ سگی ماں کا بھی ادب نہیں کرتے۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد5، صفحہ55، مطبوعہ  نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم