مجیب: مفتی محمد
قاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-7776
تاریخ اجراء: 01
شعبان المعظم 1443ھ/05 مارچ 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے
دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ ایک
شخص کا یکم رجب کو نصاب کا سال شروع
ہوا، اب اگلی یکم رجب کو نصاب مکمل نہیں، کہ زکوۃ دے ، لیکن
صِفر بھی نہیں ، یعنی کچھ نہ کچھ مال موجود ہے، مگر پھر
وہی شخص دوبارہ رمضان المبارک کی
پندرہ تاریخ کو صاحب نصاب ہو جاتا ہے، تو کیا اب نئے سرے سے نصاب کا
سال 15رمضان سے شروع ہو گا یا یکم رجب المرجب ہی رہے گا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ
ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کی
گئی صورت کے مطابق نصاب کا سال تبدیل ہو کر پندرہ رمضان
المبارک سے شروع ہو چکا ہے،کیونکہ زکوٰۃ
کے واجب ہونے کے لیے سال کے شروع
اور آخر میں مال کا بقدرِ نصاب ہونا ضروری ہے، اگر سال کے شروع میں تو بقدرِ نصاب ہو، مگر
آخر میں نہ ہو تو اُس سال کی زکوٰۃ واجب نہیں
ہوتی، لیکن جب دوبارہ کبھی اُس مال میں مزید اِتنی
رقم شامل ہو جائے کہ وہ رقم مل کر نصاب کے
برابر ہو تو اُسی دن سے زکوٰۃ کا نیا سال شروع ہو جاتا ہے۔
لہٰذا جب یکم رجب المرجب کو سال
مکمل ہوا تو آپ کی رقم بقدرِ نصاب نہیں، بلکہ کم
تھی،لہٰذا زکوٰۃ واجب نہ رہی اور وہ سال کالعدم ہو
گیا، لیکن جب رمضان کی 15 تاریخ کو دوبارہ اِتنی
رقم آ گئی کہ آپ صاحبِ نصاب ہو گئے ،
تو اب 15رمضان سے زکوٰۃ کے
نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے۔
مسئولہ صورت کے متعلق شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:لوأن رجلا لہ مائتا درھم فضاع نصفھا قبل کمال الحول بیوم۔۔۔فإن
تم الحول ولم یستفد ھذہ المائۃ ثم مضت السنۃ الثانیۃ
إلا یوما ثم استفاد مائۃ ثم تم الحول فلا شیء علیہ فی
الحولین لأنہ تم الحول الأول ومالُہ دون النصاب فلم تلزمہ
الزکاۃ ولم ینعقد الحول الثانی علی مالہ لنقصان النصاب فی
أول ھذا الحول، وإنما استفاد المائۃ ولیس علی مالہ حول ینعقد
فلا تلزمہ الزکاۃ ولکن ینعقد الحول من حین استفاد المائۃ
لأنہ تم نصابہ الآن فإذا تم الحول من ھذا الوقت زکی المائتین‘‘ ترجمہ:ایک شخص کے پاس 200 درہم تھے،
لیکن نصابی اعتبار سے سال مکمل ہونے سے ایک دن پہلے 100 درہم
ضائع ہو گئے۔اب اگر سال کا یہ
ایک باقی دن بھی نصاب
کی کمی کے ساتھ ہی گزر گیا، لیکن سو درہم میں
اضافہ ہو کر مال دوبارہ نصاب کی
مقدار نہ ہوا اور پھر دوسرا سال بھی مکمل ہونے والا تھا اور ایک دن
باقی تھا، مگر 100 درہم مزید آ گئے اور سال مکمل ہو گیا تو اُس
شخص پر دونوں سالوں میں کچھ بھی واجب نہیں، کیونکہ جب
پہلا سال مکمل ہوا تھا تو اُس کا مال نصاب سے کم تھا اور یہ بات معلوم ہے کہ
آخِر سال مقدارِ نصاب میں کمی کی وجہ سے زکوٰۃ واجب
نہیں ہوتی۔(اور جہاں تک دوسرے سال بھی زکوٰۃ
واجب نہ ہونے کا تعلق ہے، تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ ) مال پر نصاب کے
اعتبار سے دوسرا سال منعقد ہی نہیں ہوا تھا، کیونکہ سال کے شروع
میں نصاب ہی مکمل نہ تھا اور جب سو درہم میں مزید
ایک سو درہم ملے تو زکوٰۃ پھر بھی لازم نہ ہو
گی، کیونکہ اُس مال پر سال شروع ہی نہ ہوا تھا۔ ہاں
البتہ اب جب سے سودرہم مزید ملے ہیں تو نصابی اعتبار سے
نیا سال شروع ہو چکا۔ لہذا جب
دوبارہ دوسو درہم ملنے والے دن کے لحاظ سے سال مکمل ہو گا تو اِن دو سو درہم
کی زکوٰۃ دے گا۔ (المبسوط، جلد2، کتاب
نوادر الزکاۃ، صفحہ32، مطبوعہ دار الكتب العلمية،بیروت)
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عشرکس پرہوگا,خریدارپریابیچنے والے پر؟
تمام کمائی ضروریا ت میں خرچ ہوجا تی ہیں ،کیا ایسے کوزکوۃ دےسکتے ہے؟
نصاب میں کمی زیادتی ہوتی رہے تو زکوۃ کا سال کب مکمل ہوگا؟
زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرکے ٹیکس میں دیناکیسا؟
زکوۃ حیلہ شرعی کے بعد مدرسہ میں صرف کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
کیا مالِ تجارت پرزکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟
علاج کے سبب مقروض شخص زکوۃ لے سکتا ہے یا نہیں؟
کیا مقروض فقیر کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟