Abul Qasim Kuniat Rakhna Kaisa ?

ابو القاسم کنیت رکھنا کیسا ؟

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1902

تاریخ اجراء:03صفر المظفر1445ھ/21اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ابو القاسم کنیت رکھنا کیسا  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ابو القاسم  کنیت رکھ سکتے ہیں ،اس  میں کوئی حرج نہیں ہے۔حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے :”ولا بأس أن يكنى أبا القاسم, وما رواه البخاري وغيره من قوله صلى الله عليه وسلم: "سموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي", منسوخ لأن عليا رضي الله عنه كنى ابنه محمد بن الحنفية أبا القاسم, ولولا علمه بالنسخ لما كناه بها, أو يقال: كان النهي مخصوصا بزمانه صلى الله عليه وسلم لدفع الالتباس كما ذكره الفقهاء في كتاب الاستحسان“ ترجمہ: اور ابو القاسم کنیت رکھنے میں کوئی حرج نہیں  اور جو امام بخاری  وغیرہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان روایت کیا ہے کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو تو یہ منسوخ ہے کیونکہ علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کی کنیت ابو القاسم رکھی تھی  اور اگر حضرت علی کو اس کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہوتا تو ہرگز اپنے بیٹے کی یہ کنیت نہ رکھتے یا یوں کہاجائے گا کہ التباس کو دور کرنے کیلئے ممانعت حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ خاص تھی  جیساکہ اس کو فقہاء نے کتاب الاستحسان میں ذکر فرمایا ہے ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ص 10،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم