Bache Ka Naam Ghani Rakhna

بچے کا نام غنی رکھنا

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2844

تاریخ اجراء: 14ذوالحجۃالحرام1445 ھ/01جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دادی نے اپنے پوتے کا نام غنی رکھا ہے،تو کیا غنی نام رکھ سکتے ہیں،حالانکہ غنی تو اللہ پاک کا نام ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں غنی نام رکھنا اور اسی نام سے پکارنا شرعا جائز ہے۔کیونکہ یہ ان ناموں  میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص نہیں ، اور   جب انسان کے لئے یہ لفظ بولا جائے،تو اس کا  معنی وہ نہیں ہوتا جو  اللہ تعالیٰ کے لئے بولنے کی  صورت میں ہوتا ہے، لہذا یہ نام رکھ سکتے ہیں ۔

    اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نام دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ نام جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں ہیں مثلاً علی ، غنی، رشید ،کبیر  بدیع  وغیرہ۔ یہ نام انسان کے لئے رکھے جاسکتے ہیں۔ خواہ عبد  کے ساتھ رکھیں یا بغیر عبد  کے،  دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔

   اور دوسرے اللہ تعالیٰ  کے وہ نام ہیں، جو اس کے ساتھ خاص  ہیں ،مثلاً رحمٰن، سبحان، قدوس وغیرہ ،ان میں سےجب کوئی نام  انسان کے لیے رکھا جائے ،تو اس کی طرف لفظِ عبد کی اضافت کرنا یعنی ان کے شروع میں لفظ عبد لگانا ضروری ہوتا ہے اورایسے نام (جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں) عبد کی اضافت کے  بغیر کسی انسان کے لیے استعمال کرنا ناجائز ہے اور بعض اوقات حکم مزید سخت بھی ہو سکتا ہے ۔

   اور غنی نام رکھنے میں بھی بہتر یہ ہے کہ اولاًبیٹے کانام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں"محمد"نام رکھنے کی فضیلت اورترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اور ظاہریہ ہے کہ یہ فضیلت تنہانام محمدرکھنے کی ہے،پھرپکارنے کے لیےغنی نام رکھ لیں ۔

   قرآنِ پاک میں بھی کئی جگہ لفظِ غنی کا اطلاق مخلوق پر  ہوا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ یہ اللہ تعالی کے ساتھ خاص نہیں۔چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا- فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ﴾ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو  بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔(پارہ 5،سورۃ النساء،آیت 135)

   جو اسماء اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں، وہ انسان کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں، اس  بارے میں درمختار میں ہے: وجاز التسمیۃ بعلی و رشید وغیرھما من الاسماء المشرکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالیٰ، لکن التسمیۃ بغیر ذلک فی زماننا اولی لان العوام یصغرونھا عند النداء“  ترجمہ: اسماء مشترکہ میں سے علی ،رشید  وغیرہ نام رکھنا جائز ہے  اور (ان ناموں سے )جو معنی  اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے ،لیکن ہمارے زمانے میں ان ناموں کے علاوہ نام رکھنا بہتر ہے کیونکہ عوام پکارتے وقت ان ناموں کی تصغیر کردیتے  ہیں  ۔( الدرالمختار مع ردالمحتار ، جلد06،صفحہ415، الناشر: دار الفكر،بيروت)

محمدنام رکھنے کی فضیلت:

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے” قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن “ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم