Bache Ka Naam Khaliq Rakhna Kaisa Hai ?

بچے کا نام  ” خالق “ رکھنا

مجیب: ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-2292

تاریخ اجراء: 08جمادی الثانی1445 ھ/22دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بچے کا نام  ” خالق “ رکھنا کیسا ؟جواب عنایت فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لفظ خالق اللہ تعالیٰ کے اُن اسماء میں سے ہے جو اُسی کے ساتھ خاص ہیں  اور ایسے نام جو اللہ  تبارک و تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہوں ، وہ بندوں کے رکھنا اور ان کے لیے بولنا  ہرگز جائز نہیں، لہٰذا پوچھی  گئی صورت میں بچے کا نام خالق نہیں رکھ سکتے ، بلکہ عبد کی اضافت کے ساتھ عبد الخالق رکھا جائے جس کا معنی ہے :خالق کا بندہ ،نیز یہ بھی ذہن نشین رہے! جس کا نام عبد الخالق رکھاگیا ، اب اسے خالقکہہ کر پکارنا اور بولنا بھی جائزنہیں۔

   اور بہتریہ ہے کہ اولاًبیٹے کانام صرف"محمد"رکھیں،کیونکہ حدیث پاک میں"محمد"نام رکھنے کی فضیلت اورترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اورظاہریہ ہے کہ یہ فضیلت تنہانام محمدرکھنے کی ہے،پھرپکارنے کے لیے چاہیں، تومذکورہ بالانام  (یعنی عبد الخالق)یااس کے علاوہ کوئی اور رکھنا چاہیں تووہ رکھ لیجیے اورزیادہ  بہتر یہ ہے کہ لڑکے کا نام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ کے اسمائے مبارکہ  اور صحابہ  کرام و تابعین عظام اور  بزرگانِ دین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن  نیک لوگوں کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیجیے کہ حدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے۔

   اسمخالقاللہ تبارک وتعالی کے اسمائے مختصہ میں سے ہے،جیساکہ تفسیر طبری میں ہے:وكان  للہ  جل ذكره اسماء قد حرم على خلقه ان يتسموا بها،خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل اللہ  والرحمن و الخالق یعنی کچھ نام اللہ تعالی کے ساتھ ایسے خاص ہیں کہ مخلوق کے لیے وہ نام رکھنا حرام ہیں،وہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے لیے خاص فرمائے ہیں،جیسےاللہ ، رحمٰن، خالق۔(تفسیر الطبری ، جلد1، تأویل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، صفحہ 132، مطبوعہ دار  ھجر)

   غیر اللہ کا نام خالقرکھناحرام ہونے کے بارے میں سیدی علامہ عبد الغنی نابلسی  رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ”واعلم أن التسمي بهذا الاسم حرام وكذا التسمي بأسماء اللہ تعالىٰ المختصة به كالرحمن والقدوس والمهيمن وخالق الخلق ونحوها “ یعنی اس نام (ملک الاملاک حقیقی استغراقی معنی کا لحاظ کرتے ہوئے) پر نام رکھنا حرام ہے ۔ اسی طرح ان ناموں کے ساتھ جو اللہ تعالی کے ساتھ مختص ہیں، نام رکھنا حرام ہے جیسے: رحمن ،قدوس ،مھیمن، خالق الخلق وغیرہ۔(بریقہ محمودیہ شرح طریقہ محمدیہ ، جلد 3 ، صفحہ 236 ، مطبوعہ مطبعۃ الحلبی   )

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ /  1921ء) لکھتے ہیں: ولھذا چنانکہ اطلاق باری  و خالق بر غیر  اوسبحنہ  نیست  اطلاق قیوم  نیز نتواں شد یعنی جس طرح اللہ تبارک وتعالی کی ذات کے علاوہ مخلوق پر لفظ باری اور  لفظ خالق کا اطلاق نہیں ہوسکتا،اسی طرح قیوم کا اطلاق بھی نہیں ہوسکتا ۔(فتاوی رضویہ، جلد13، صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور "محمد" نام رکھنے کی فضیلت کے متعلق کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ” من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا  پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   ردالمحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے” قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن “ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم