Chalis Din Ka Hamal Zaya Ho Jaye To Kya Uska Naam Rakhna Hoga ?

چالیس دن کا حمل ضائع ہوجائے، تو کیا اس کا نام رکھنا ہوگا؟

مجیب: فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-489

تاریخ اجراء:       24محرم الحرام1444 ھ  /23اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   چالیس دن کا حمل ہو ، پھر وہ ضائع ہوجائے ، تو کیا اس کا نام رکھنا ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بچہ زندہ پیدا ہوا یا مردہ، اس کی خلقت تمام ہو یا نا تمام بہرحال اس کا نام رکھا جائے۔ اورجس کچے بچے کے متعلق علم نہ ہو کہ لڑکا تھا یا لڑکی تو اس کا ایسا نام رکھا جائے جو لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے رکھا جاسکتا ہو۔ جیسے ممتاز،شمیم ،اختروغیرہ۔ یہ نام لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے رکھے جاتے ہیں ۔

   ردالمحتار میں ہے:”روی:اذا ولد لاحدکم ولد فمات فلا یدفنہ حتی یسمیہ ،ان کان ذکرا باسم الذکر وان کان انثی باسم انثی وان لم یعرف فباسم یصلح لھما“یعنی مروی ہے کہ جب تم میں سے کسی کے ہاں بچہ کی ولادت ہو اور وہ فوت ہوجائے ، تو وہ اس کو دفن نہ کرے یہاں تک کہ اس کا نام رکھ دے، اگر لڑکا ہے ،تو لڑکے کانام، اگر لڑکی ہے ،تو لڑکی کا نام اور اگر معلوم نہ ہوسکے، تو ایسا نام رکھا جائے جو دونوں کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (ردالمحتار، جلد9،صفحہ 689،مطبوعہ:کوئٹہ)

   مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بچہ زندہ پیدا ہوا یا مردہ اس کی خلقت تمام ہو یا نا تمام بہر حال اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن اس کا حشر ہوگا“(بہارِ شریعت، جلد1،حصہ 4،صفحہ 841،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم